مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے عالمی ادارے کی سلامتی کونسل کے ارکان کے نام خطوط میں شمالی عراق میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے حوالے سے ایران کے موقف کی وضاحت کی۔
ایرانی مشن نے اپنے خط میں لکھا کہ ایران کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنی قومی سلامتی اور اپنے عوام کے دفاع کے لیے بین الاقوامی قانون کے تحت دفاع کے اپنے موروثی حق کو استعمال کرے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ان کے ملک نے حال ہی میں عراقی کردستان کے علاقے میں دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں کے خلاف ضروری اور متناسب فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا ہے جس کی بڑی احتیاط کے ساتھ منصوبہ بندی کی گئی اور درست طریقے سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ایران برسوں سے عراقی کردستان کے علاقے میں قائم دہشت گرد گروہوں کا نشانہ بنا ہوا ہے جنہوں نے حال ہی میں اپنے ساتھیوں کو مسلح کرنے کے لیے غیر قانونی طور پر بھاری مقدار میں ہتھیار ایران میں منتقل کر کے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
ایرانی مشن کے خط کے مطابق دہشت گردوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں متعدد شہری ہلاکتیں، توڑ پھوڑ اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ایران نے عراق کی مرکزی حکومت اور کردستان ریجن کے حکام کے ساتھ "ناقابل تردید ثبوت اور معتبر معلومات" شیئر کی ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ دہشت گرد اور علیحدگی پسند گروہ عرب ملک کی سرزمین کو اسلامی جمہوریہ کے خلاف "دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں کی منصوبہ بندی، حمایت، منظم کرنے اور انجام دینے" کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
خط میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کہ ایران نے عراقی حکومت اور عراقی کردستان ریجن کے حکام کے ساتھ دو طرفہ مشاورت اور مذاکرات کے کئی دور منعقد کیے ہیں جن میں عراقی قومی سلامتی کے مشیر کا حالیہ دورہ تہران بھی شامل ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ان مذاکرات کے دوران ایران نے دہشت گردی کے جرائم کے مرتکب اور ایرانی عدالتوں سے سزا یافتہ افراد کی حوالگی کے ساتھ ساتھ ایسے دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں اور تربیتی کیمپوں کو بند کرنے اور ان عناصر کو غیر مسلح کرنے کی درخواست کی۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ایران نے عراقی فوجی دستوں کو اپنی سرحدوں پر تعینات کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ عراقی وفد نے درخواستوں سے اتفاق کیا اور ان دہشت گرد گروہوں کو غیر مسلح کرنے کے لیے ایک ٹائم فریم تیار کرنے کا بھی عہد کیا۔
ایرانی مشن نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اب تک ایسے معاہدوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے گئے ہیں اور کہا کہ ایران نے متواتر طور پر مذکورہ معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
ایرانی مشن نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے ایک حصے کے طور پر دو طرفہ میکانزم کے ذریعے عراق کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایران کے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے عراق کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام، بین الاقوامی ذمہ داریوں کے مطابق دہشت گردی سے نمٹنے کی ضرورت اور دہشت گردانہ سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ تعاون کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران عراق کی سلامتی اور استحکام کو بہت اہمیت دیتا ہے اور ایک بار پھر جمہوریہ عراق کی علاقائی سالمیت، اتحاد اور خودمختاری کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔
خیال رہے کہ 24 ستمبر سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے دہشت گردوں کے اکثر ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کیے ہیں جو ایران کے مغربی سرحدی شہروں میں فسادات اور بدامنی کو ہوا دینے کے لیے عراقی کردستان میں چھپے ہوئے ہیں۔
ایران نے متعدد مواقع پر عراقی کردستان کے مقامی حکام کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی شمال مغربی سرحدوں پر دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور سرگرمیوں کو برداشت نہیں کرے گا اور کہا ہے کہ اگر وہ علاقے اسلامی جمہوریہ دشمن دہشت گردوں کا مرکز بن گئے تو فیصلہ کن جواب دے گا۔