مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے گزشتہ رات کو ایشیا پیسیفیک نیوز ایجنسیوں کے اجلاس میں شریک میڈیا مینیجرز سے ملاقات کی اور ایران کے حوالے سے عالمی مسائل پر بھی گفتگو کی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے ایران کے عالمی جوہری نگراں ادارے کے ساتھ تعاون کے بارے میں کہا کہ ایٹمی ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ ایران میں یورینیم کے تین مشتبہ مقامات دیکھے گئے ہیں۔ ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ نے ویانا کے اپنے حالیہ سفر کے دوران ایجنسی کے سوالات کے جوابات کے لیے ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی کے ساتھ ایک روڈ میپ پر اتفاق کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم تین یورپی ممالک اور امریکی فریق کو واضح طور پر بتا چکے ہیں کہ ہم ایران کے خلاف متعدد بے بنیاد مقدمات کی فائلز کو ایجنسی میں کھلے رہنے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہم پر امید ہیں کہ ایجنسی کے ساتھ متفقہ روڈ میپ کے اندر تکنیکی طریقے سے الزامات کا جواب دیں گے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ تینوں یورپی ملکوں کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ ایسے حالات میں ہم کسی معاہدے کی منظوری کے لیے تیار نہیں ہیں کہ جب ایران پر بے بنیاد الزامات کے کئی کیسز کھلے پڑے ہوں۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران کے بارے میں مغربی دنیا کے ایجنڈے میں شامل معاملے کا مختصراً ذکر یوں ہے کہ ایک مسئلہ یوکرین کی جنگ کے بارے میں ایران کا موقف اور وہاں ڈرون بھیجنے کا مسئلہ ہے جس کا مغربی میڈیا کی طرف سے ایران پر الزام لگایا جا رہا ہے۔ دوسرا مسئلہ ویانا کے 4+1 کے ساتھ مذاکرات اور جابرانہ پابندیوں کے خاتمے کے لیے امریکہ کے ساتھ بالواسطہ بات چیت ہے جس کو فعال طور پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ جنگ کے حوالے سے ایران کا موقف واضح طور پر اٹھایا گیا ہے اور جس طرح ہم شام اور یمن کی جنگ کے خلاف ہیں اسی طرح ہم یوکرین کی جنگ کے بھی خلاف ہیں اور گزشتہ مہینوں میں کئی بار صدر مملکت اور وزارت خارجہ میں میرے ساتھیوں کی کوششیں جنگ کو روکنے اور سیاسی مذاکرات پر مرکوز رہی ہیں۔انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ تہران کی پالیسی متضاد نہیں ہے اور ہم یوکرین سمیت خطے میں امن کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں، مزید کہا کہ اس وقت ہمارے خلاف ماحول سازی ہو رہی ہے اور ایران پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ایران نے ماسکو کو ڈرون فراہم کیے ہیں تاہم میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایران اور روس کے مابین دفاع سمیت مختلف شعبوں میں تعاون ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ماضی میں روس سے کچھ ہتھیار حاصل کیے ہیں اور اب بھی حاصل کر رہے ہیں اور روس کو کچھ سہولیات فراہم کرتے رہتے ہیں جبکہ اپنے اصولی نظریہ کے ساتھ یوکرین کی جنگ کے خلاف ہیں، ہم روس میں بھی جنگ کے مخالف ہیں اور یوکرین میں جنگ کے بھی۔ ہم نے روس کو یوکرین جنگ کے لئے کوئی ہتھیار نہیں نہیں دیا۔امیر عبداللہیان نے یوکرین جنگ کے لئے ایرانی ڈرونز کی فراہمی کی افواہوں سے متعلق کہا کہ روسی حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یوکرین کے خلاف استعمال ہونے والے ہتھیار روسی ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یوکرین کو ایران سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم نے روس کو یوکرین جنگ میں استعال کیلئے کسی بھی قسم کے ڈرونز اور ہتھیار کی فراہمی نہیں کی ہے اور نہ کریں گے، تاہم یوکرین جنگ سے قطع نظر ایران اور روس کا تعاون جاری رہے گا۔
امیر عبداللہیان نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ سے اپنی حالیہ گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جوزف بوریل سے ٹیلی فونک رابطے کے دوران کہہ چکا ہوں کہ ہم ایرانی اور یوکرینی فوجی ماہرین کی ٹیم کے ذریعے یوکرین کی جنگ میں ایرانی ساختہ ڈرون کے استعمال ہونے کے دعوے کا جائزہ لینے کے لئے مشترکہ اجلاس کرنے کو تیار ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم اس بات کے لیے بھی تیار ہیں کہ یوکرین کے پاس جو بھی ثبوت ہیں وہ پیش کریں اور اگر اس اجلاس میں ہم پر یہ واضح ہو گیا کہ روس نے ایرانی ڈرون استعمال کیے ہیں تو ہم لاتعلق نہیں رہیں گے۔
جوہری معاہدے اور پابندیوں کے خاتمے کے مذاکرات کے حوالے سے ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم معاہدے کے آخری مراحل میں ہیں جبکہ ہم نے سفارتی مواقع کو بھر پور استعمال کیا اور تیزی کے ساتھ پیغامات کا تبادلہ ہوا اور اس دوران یورپ کا کردار اہم تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دنوں امریکہ کی جانب سے سفارتی پیغامات کے ذریعے معاہدے کے موقع کو بچانے کی کوشش کی گئی جبکہ بعض مقامات پر اس نے ایران میں افراتفری اور دہشت پھیلانے کی کوشش کی۔امیر عبداللہیان نے کہا کہ کچھ غیر ملکی مداخلت کار یہاں تک آگے بڑھ گئے کہ جیش العدل نے زاہدان میں چند گھنٹوں کے لیے دہشت گردانہ کارروائیاں کیں جو ایک جانے پہچانے ملک او
اجراء کی تاریخ: 25 اکتوبر 2022 - 17:26
ایرانی وزیر خارجہ نے ایران کے عالمی جوہری نگراں ادارے کے ساتھ تعاون کے بارے میں کہا کہ ایٹمی ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ ایران میں یورینیم کے تین مشتبہ مقامات دیکھے گئے ہیں۔