ایران کے صدر نے شنگھائی تنظیم کے سربراہی اجلاس کی سائڈ لائن پر الجزیرہ نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ایٹمی معاہدے تک پہنچنے کا حتمی فیصلہ امریکہ پر منحصر ہے جبکہ اسے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لئے جاری مذاکرات کے دوران اعتماد سازی کے اقدامات کرنے ہوں گے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی نے شنگھائی تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہی اجلاس کی سائڈ لائن پر الجزیرہ نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ایٹمی معاہدے تک پہنچنے کا حتمی فیصلہ امریکہ پر منحصر ہے اور اسے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لئے جاری مذاکرات کے دوران اعتماد سازی کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ 

جب ان سے اس معاہدے کے حوالے سے ایران اور امریکہ کی براہ راست بات چیت کے امکانات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ جوہری معاہدے پر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایرانی قوم کے مفادات امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر مبنی نہیں ہیں۔

آیت اللہ رئیسی نے امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف عائد کردہ نئی پابندیوں کی بھی مذمت کرتے ہوئے سوال کیا کہ اگر واشنگٹن معاہدہ چاہتا ہے تو ایٹمی مذاکرات کے دوران ایران پر نئی پابندیاں کیوں عائد کرتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ ہم مذاکرات کے دوران ایران اور اس کے عوام کے حقوق کا فیصلہ کن دفاع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ طور پر امریکی پابندیوں کی منسوخی کا متعلقہ گارنٹیز اور ضمانتوں کے ساتھ ہونا ضروری ہے۔

ایرانی حکام نے بار بار زور دے کر کہا ہے کہ ممکنہ طور پر اگر پابندیاں اٹھائی گئیں تو واشنگٹن کو اس بات کی ضمانت دینے کے قابل ہونا چاہیے کہ وہ دوبارہ پابندیاں نہیں لگائے گا۔

در ایں اثنا آیت اللہ رئیسی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے اصولی موقف پر بھی تاکید کی کہ ویانا مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ایران اور اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے درمیان حفاظتی مسائل ﴿safeguard issues﴾ کو حل کرنا ہوگا۔

ایران کے صدر نے مزید کہا کہ مغرب کو ایران سے اپنی جوہری سرگرمیاں روکنے کے لیے کہنے کے بجائے اسرائیل سے ایسی درخواست کرنی چاہیے جس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ رئیسی نے یہ بھی کہا کہ مغرب کو اسرائیلی حکومت سے کہنا چاہیے کہ وہ ایران کی پرامن جوہری سرگرمیوں پر تنقید کرنے کے بجائے اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو روکے۔

انٹرویو کا ایک حصہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پر مشتمل تھا، جس میں ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ تہران کے ریاض کے ساتھ اب بھی اختلافات ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان اب تک مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں اور مزید بھی جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اگر بیرونی طاقتیں مداخلت نہ کریں تو علاقائی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

عراق میں نئی حکومت بنانے کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر رئیسی کا کہنا تھا کہ ہمیں عراق میں ایک مضبوط حکومت دیکھ کر خوشی ہوگی۔ اس سلسلے میں ایران کے صدر نے یہ بھی کہا کہ یورپی ممالک نے عراق کے بحران کے حوالے سے میں ہم سے رابطہ کیا تھا اور ہم نے ان سے کہا تھا کہ یہ عراقیوں کا مسئلہ ہے۔

ایرانی صدر نے یہ بھی کہا کہ خطے کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اگر بیرونی قوتیں اپنی مداخلت بند کر دیں، انہوں نے مزید کہا کہ عراقیوں کو امریکیوں کی اپنے ملک میں موجودگی کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

آیت اللہ رئیسی نے یمن کے مسئلے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ مستقل جنگ بندی اور مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے یمن کی ناکہ بندی اور محاصرے کو ختم کرنا ضروری ہے۔