مہر نیوز ایجنسی، محمد علی تخت روندہ: حالیہ دنوں میں اسرائیل کی لبنانی سمندری حدود کے اطراف میں نقل و حرکت دیکھی گئی اور غاصب اسرائیلی کشتیوں کا کاریش کے گیس اخراج کرنے والے پلیٹ فارم اور سمندری حدود کی لائن ۲۹ کی طرف آنا جانا لگا رہا۔ درنہایت دو روز قبل حزب اللہ لبنان نے اپنے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی جانب سے دئیے گئے انتبہات میں سے کچھ کو جامہ عمل پہنا دیا۔ اس سلسلے میں حزب اللہ کے تین ڈرون طیاروں نے کاریش کی گیس فیلڈ کے اوپر پرواز کی اور اپنی سراغ رسانی کو کامیابی کے ساتھ پورا کرتے ہوئے کسی قسم کے خطرے یا نقصان کا سامنا کئے بغیر واپس لوٹے۔
تمام اسرائیلی عسکری اور سیاسی حکام کی نیندیں اڑا دی ہیں
اس واقعے کے بعد اسرائیلی میڈیا نے حزب اللہ لبنان کی ڈرون اور میزائل صلاحیت کے بارے میں اپنی پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ اس واقعے نے تمام اسرائیلی عسکری اور سیاسی حکام کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ اسی طرح اسرائیلی اینٹلیجنس حلقوں سے نزدیک ذرائع کا کہنا ہے کہ تل ابیب مزید بڑے پیمانے پر حزب اللہ کے ڈرون حملوں سے خوفزدہ ہے۔ تاہم اس واقعے کا پہلا عملی اثر جسے سفارتی مسائل میں موثر سمجھا جاسکتا ہے گزشتہ روز ظاہر ہوا۔ اس سلسلے میں گزشتہ روز لبنان کے وزیر خارجہ عبد اللہ بوحبیب نے ٹی وی پر گفتگو کے دوران کہا میرا اندازہ ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ سمندری سرحدوں کی حد بندی کا مسئلہ زیادہ سے زیادہ آئندہ ستمبر تک حل ہوجائے گا۔ امریکیوں اور اقوام متحدہ سے حاصل ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سمندری حدود کی حد بندی کے لئے لبنان اور غاصب اسرائیل کے مابین ہونے والے مذاکرت میں پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔
اس بیان کو حزب اللہ کی کاریش گیس فیلڈ کے اوپر کامیاب ڈرون کاروائی کا پہلا اثر قرار دیا جاسکتا ہے چونکہ بحیرہ روم کا یہ علاقہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان متنازعہ ہے۔ تاہم یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس ڈرون کاروائی کے نتائج صرف اسی مسئلے تک محدود رہیں گے تو جواب منفی ہے۔ حزب اللہ کا بحیرہ روم کی فضا میں حالیہ اقدام مذکورہ بالا قلیل مدتی اثرات کے ساتھ ساتھ طویل مدت اسٹریٹجک اثرات کا حامل ہے۔ ذیل میں ان اثرات کی وضاحت دی گئی ہے۔
کیا نیا عسکری توازن ایجاد ہوگیا ہے؟ اسرائیل کی حساس تنصیبات کے اوپر حزب اللہ کی ڈرون پرواز نے اسرائیلی میڈیا میں ہل چل مچادی ہے
اس بنیاد پر ایسا لگتا کہ حزب اللہ لبنان نے غاصب اسرائیل کے مقابلے میں اپنی فعال مزاحمت کے تسلسل میں اس مرتبہ فضائی شعبے میں بھی اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے۔ یہ مزاحمت ۲۰۰۰ میں غاصب اسرائیلی افواج کے جنوبی لبنان سے بھاگنے سے شروع ہوئی اور ۲۰۰۶ میں ۳۳ روزہ جنگ میں بھی تل ابیب کی جانب سے کسی عسکری کامیابی کے حصول کے بغیر فوجی جارحیت کے خاتمے کا باعث بنی۔
اسرائیل کی حساس تنصیبات کے اوپر حزب اللہ کی ڈرون پرواز نے اسرائیلی میڈیا میں ہل چل مچادی ہے اور ان پر خبریں چل رہی ہیں کہ اس واقعے کے بعد اسرائیلی فوج نے کاریش گیس فیلڈ کے آسمانوں پر حزب اللہ کے ڈرون گرایے نہ جانے کی وجوہات جاننے کے لئے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور ابتدائی نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیلی فضائیہ مذکورہ ڈرون کو نشانہ بنانے میں مشکلات کا شکار رہی، یہاں تک کہ کئی میزائل فائر کرنے بعد بھی حزب اللہ کے ڈورن کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔
در حقیقت وہ اہم اور بنیادی مسئلہ جس نے غاصب اسرائیل کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے، حزب اللہ کے ڈرون طیاروں کا کاریش گیس فیلڈ کے اوپر پرواز کرنا نہیں ہے بلکہ ان تین ڈرون طیاروں کا سراغ رسانی کی کامیاب کاروائی اور دشمن کی جانب سے بغیر کسی نقصان کے واپسی ہے۔ یہ مسئلہ تل ابیب کے لئے زیادہ پریشان کن ہے۔
حزب اللہ کے جدید مزاحمتی توازن کا حدود اربعہ کیا ہے؟ ۳۳ روزہ جنگ میں جارح اسرائیلی جنگی کشتی تباہ کر کے بحری حیثیت بھی منوانے کے بعد اس مرتبہ اسرائیل کے مقابلے میں فضائی توازن کا نقشہ کھینچ رہی ہے
حزب اللہ نے غاصب اسرائیل کے مقابلے میں پیہم فعال مزاحمت کو جاری رکھتے ہوئے اس اقدام کے ذریعے طاقت کے ایک نئے توازن کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس نئے مزاحمتی توازن کا حدود اربعہ یہ ہے: اس کے بعد لبنانی سمندری حدود میں غاصب اسرائیلی نقل و حرکت بغیر جواب نہیں رہے گی اور حزب اللہ نے اتنی فضائی طاقت حاصل کر لی ہے کہ صہیونی ریاست کی حساس فوجی تنصیبات کو ڈرون سے نشانہ بنا کر تباہ کرسکتا ہے۔
ان تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ حزب اللہ نے بری اور گوریلا جنگ میں اپنی حیثیت منوانے کے بعد اور اسی طرح ۳۳ روزہ جنگ میں جارح اسرائیلی جنگی کشتی تباہ کر کے بحری حیثیت بھی منوانے کے بعد اس مرتبہ اسرائیل کے مقابلے میں فضائی توازن کا نقشہ کھینچ رہی ہے۔ یہ توازن صہیونی غاصب رجیم کو پہلے سے بڑھ کر کسی بھی قسم کی جارحیت یا حتی کہ لبنانی حدود میں تجاوز کرنے سے خوفزدہ کردے گا۔
ان حقیقتوں کو حالیہ ڈرون کاروائی کے بعد حزب اللہ کی جانب سے جاری ہونے والے مختصر بیان میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حزب اللہ نے اس سلسلے میں اعلان کیا ہے کہ ڈرون طیاروں نے اپنی سراغ رسانی کی ماموریت کو کامیابی کے ساتھ مکمل کیا اور دوسری طرف کو مطلوبہ پیغام بھی منتقل ہوگیا ہے۔