مہر خبررساں ایجنسی نے رائٹرز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ترکی کے صدر نے ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کا الزام فتح اللہ گولن پر عائد کرتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کردے جبکہ فتح اللہ گولن نے فوجی بغاوت میں شرکت کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔ ترکی کے صدر نے فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کرنے کے سلسلے میں امریکی صدر باراک اوبامہ سے ٹیلیفون پر گوفتگو کی ہے۔ ادھر ترک کے وزیر اعظم نے کہا ہے کہ فتح اللہ گولن کو پناہ دینے والا ملک ترکی کا دشمن ہے۔اطلاعات کے مطابق باغی فوجیوں اور عوام کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعداد 265 تک پہنچ گئی ہے جن میں 161 عام شہری اور پولیس اہلکار ہیں جبکہ 104 باغی شامل ہیں۔بغاوت کی کوشش میں 2 ہزار 745 ججز اور 2 ہزار 839 فوجیوں کو ملوث قرار دیکر ان کے خلاف کارروائی کا آئاز کردیا گیا ہے۔ترک صدر طیب اردوغان نے استنبول میں اپنے گھر کے باہر جمع ہزاروں حامیوں سے خطاب میں کہا کہ فوجی بغاوت کی کوشش کرنے والے انہیں قتل کرنا چاہتے تھے۔طیب اردوغان نے کہا کہ ملک کو گولن کی تحریک سے بہت نقصان پہنچا ہے اور میں امریکہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ یا فتح اللہ گولن کو گرفتار کرے یا پھر ترکی کے حوالے کرے۔ واضح رہے کہ فتح اللہ گولن ترکی کے سنی مذہبی رہنما ہیں جو امیرکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور جو ابتدا میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کے قریبی ساتھی رہے ہیں لیکن اب ترکی کے صدر فتح اللہ گولن کو اپنا سرفہرست دشمن سمجھتے ہیں۔
اجراء کی تاریخ: 17 جولائی 2016 - 13:33
ترکی کے صدر نے ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کا الزام فتح اللہ گولن پر عائد کرتے ہوئے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے کردے جبکہ فتح اللہ گولن نے فوجی بغاوت میں شرکت کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔۔