مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: صہیونی حکومت کی جانب سے شام میں ایرانی سفارت خانے کے پر دہشت گرد حملے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند بلند ہوئی۔ ایران نے فوری طور پر اعلان کیا کہ وہ صہیونی حکومت کو سخت سزا دے گا۔ گذشتہ رات سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے اسرائیل کے اندر مختلف مقامات پر ڈرون اور میزائل حملے کرکے صہیونی حکومت کو اپنے کئے کی سزا دی۔
اسرائیل کے خلاف ایران کے جوابی حملے کے بارے میں پاکستانی معروف صحافی اور تجزیہ نگار علی رضا علوی نے مہر نیوز کے نامہ نگار کے ساتھ گفتگو کی ہے۔
ان کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:
مہر نیوز؛ ایران کے ڈرون اور مرزائل حملے کے بارے میں اپ کا تجزیہ کیا ہے؟
اسرائیل کے اوپر جو ایران کے ڈرون اور میزائل حملے ایک مناسب جوابی حکمت عملی ہے۔ یہاں تک کہ افغان وزارت خارجہ کا بیان ابھی میری نظر سے گزر اہے کہ انہوں نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب دمشق میں ایک ایسی جگہ جس کوویانا کنونشن کے تحت سیکورٹی حاصل ہے اور اسرائیل نے اس کو نشانہ بنایا اور ہائی پروفائل شخصیات کو ٹارگٹ کیا تو اس کے بعد ظاہر ہے کہ ایران کے پاس اپنا دفاع کا حق بالکل موجود تھا جس کو اس نے استعمال کرتے ہوئے یہ کام کیا ہے تو اس حملے میں ان کو تمام اخلاقی جواز حاصل ہیں۔ بنیادی بات فلسطین کی ہے اور فلسطین کے معاملے پر حیرت کی بات ہے کہ دنیا بالکل خاموش ہے اور اس کو نہ ظلم قرار دے رہی ہے نہ جینوسائیڈ قرار دی گئی ہے وہاں لاشوں کے لاشے گر رہے ہیں لیکن کسی کے کانوں پر جووں تک نہیں رینگ رہی ہیں۔
مہر نیوز؛ صیہونی حکومت اور مغربی ممالک ایران کے اس رد عمل کو جارحیت قرار دینے پر تلے ہیں۔ جب کہ اقوام متحدہ کے منشور اور اس تنظیم کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق یہ "جائز دفاع" کے اصول پر مبنی ہے تو کیا یہ حملہ جائز ہے؟ آپ کا اس سلسلے میں تجزیہ کیا ہے؟
ایران کا حملہ اس کے حق دفاع کے تحت جائز عمل ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے تو اس کو ناجائز قرار دینا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایران کا بھی یہ موقف اپنی جگہ پہ ہے کہ آرٹیکل 51 کے تحت یہ ہمارا جائز دفاع ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیل نے ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرکے ایک نہیں بلکہ دو ملکوں کو نشانہ بنایا۔ شام کو نشانہ بنایا اور شام کے اندر ایران کے قونصل خانے کو نشانہ بنایا یعنی بیک وقت دو اسلامی ملک نشانہ بنائے تو اس وقت یہ کیوں نہیں بولے ؟کیا یہ وہ جارحیت نہیں تھی؟ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سلامتی کونسل کو یہ سب کیوں نظر نہیں آتا ہے۔ مسلسل ان کی آنکھیں برابر کیوں نہیں دیکھتیں ان کو فلسطین کیوں نہیں نظر اتا فلسطین کے بچے کیوں نہیں نظر ا رہے وہاں ہسپتالوں پہ بمباری کی گئی۔ یہ ساری کاروائی اقوام متحدہ کے کس چارٹر کے تحت ہوتی ہے ۔ اور تو اور خود امریکہ کی تنظیم کی طرف سے بھیجے ہوئے امدادی سامان پر حملہ کیا گیاان لوگوں پر حملہ کیا گیا جو وہاں غذا تقسیم کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے وہ کس قانون کے تحت مارے گئے۔
مہر نیوز؛ ایرانی حملے کے کیا اثرات ہوں گے؟
ایران پہلا اسلامی ملک ہے جس نے اسرائیل کو براہ راست نشانہ بنایا اور اپنے نقصان کا جواب دیا ہے۔ تو یہ ایک بہترین حکمت عملی ہے اس سے یقینا جو خوف تھا کہ اسرائیل بہت طاقتور ہے اس کا آدھا تو حماس نے توڑ دیا تھا اور بقیہ ایران نے ختم کردیا۔ اب سوال یہ ہے کہ دیکھنا یہ ہے کہ ایران کے اوپر وہ جوابی حکمت عملی کے اختیار کرتے ہیں کیا یہ جنگ پھیلتی ہے کیا وہ کوئی جوابی حملہ کرتے ہیں؟۔ اس کے اثرات تو بعد میں سامنے ائیں گے ابھی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا فوری طور پر لیکن بہرحال یہ اس کا ایک تاثر تھا کہ کوئی اس کو للکار نہیں سکتا۔ ایران نے للکار کے اس تاثر کو ختم کر دیا ہے اور بہت ساری دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔
آپ کا تبصرہ