مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ صہیونی حکومت نے 26 اکتوبر کو ایران کے مختلف مقامات پر فوجی مراکز پر حملے کئے تاہم ایرانی ائیر ڈیفنس سسٹم نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے صہیونی حملوں کو ناکام بنادیا۔
ایرانی حکام نے حملے کے بعد متعدد مرتبہ انتباہ کیا ہے کہ ایران اقوام متحدہ کے منشور کے تحت صہیونی حکومت کے خلاف جوابی کاروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے پہلے ایران نے اپنے مفادات پر حملے کی وجہ سے صہیونی حکومت کے خلاف وعدہ صادق آپریشن کیا ہے۔ شام میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے کے بعد وعدہ صادق 1 آپریشن کیا گیا جس میں 300 سے زائد ڈرون طیاروں اور میزائلوں نے غاصب اسرائیل کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
صہیونی حکومت نے اپنی شرارتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تہران میں حماس کے سربراہ شہید اسماعیل ہنیہ پر حملہ۔ جب لبنان پر حملہ کرکے حزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ اور جنرل نیلفروشان کو شہید کردیا گیا تو ایران نے وعدہ صادق 2 آپریشن کیا جس میں 200 سے زائد میزائل فائر کیے گئے۔
90 فیصد میزائلوں نے اسرائیل کے اندر مختلف فوجی اور دفاعی تنصیبات پر درست نشانہ بنایا۔ اس آپریشن میں صہیونی حکومت کو ہونے والے نقصانات سے مغربی ذرائع ابلاغ نظریں چراتے ہیں تاہم غزہ اور لبنان کی مقاومت اور اس کے حامیوں کو سہارا ملا اور صہیونی حکومت کے بارے میں فرضی داستانوں کی حقیقت کھل کر سامنے آئی۔
ایران کی جانب سے دردناک جوابی حملے کے بعد صہیونی حکومت سکتے میں آگئی ہے۔ حماس اور حزب اللہ کو شکست دینے کے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں۔ مبصرین ایران کے کامیاب حملوں اور صہیونی حکومت کی شکست کا کھل کر اعتراف کررہے ہیں۔
مہر نیوز نے ایران اور صہیونی حکومت کے درمیان جاری کشیدگی اور خطے کی صورتحال پر تبصرہ کرنے کے لئے ایران میں تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے نمائندے ناصر ابوشریف سے گفتگو کی ہے۔
ذیل میں گفتگو کا متن پیش کیا جاتا ہے۔
مہر نیوز: گذشتہ ہفتے صہیونی حکومت کی جانب سے ایران کے خلاف شرارت آمیز اقدام کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ کیا اسرائیل اپنے اہداف کے حصول میں کامیاب ہوگیا؟ کیا یہ اقدام فوجی اہداف کے تحت تھا یا صرف سیاسی ہدف حاصل کرنا مقصود تھا؟
ناصر ابوشریف: ایران کے خلاف صیہونی حکومت کا حملہ فوجی آپریشن سے بالاتر ہے اور اس کا ایک سیاسی پہلو ہے۔ یہ ناکام حملہ ایران کو خوفزدہ کرنے اور عالمی برادری اور خطے میں صیہونی حکومت کے اتحادیوں کے سامنے اپنی طاقت دکھانے کے لیے کیا گیا۔ مذکورہ حملے کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ قابض قدس حکومت یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ ایرانی سرزمین میں گہرائی تک گھس کر اس کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ لیکن کیا اس نے اپنا مقصد حاصل کیا؟ عملی طور پر صیہونی حکومت خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ ایران کا فضائی دفاعی سسٹم اس حملے سے نمٹنے کے لیے چوکس اور تیار تھا جس کی وجہ سے بہت کم جانی و مالی نقصان ہوا۔ اس ناکام حملے کے دوران ایران کے پانچ فوجی شہید ہوئے۔ صہیونی حکومت کے اس حملے کا ایران کی دفاعی یا حملہ کرنے کی صلاحیتوں پر کوئی طویل مدتی اثر نہیں پڑا۔ اس وجہ سے اس حملے کو صیہونی حکومت کی کمزور اور محدود طاقت کے مظاہرے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کو حکمت عملی کے ساتھ ناکام بنایاگیا۔
مہر نیوز: صیہونی حکومت کے حملے پر ایران کے جوابی ردعمل کا منظرنامہ کیا ہوگا؟
ناصر ابوشریف: صیہونی حکومت کے ناکام حملے کا جواب دینے کے لیے ایران کے پاس کئی آپشنز ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بیان کے مطابق ایران نہ تو ہچکچاتا ہے اور نہ ہی عجلت میں کام کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران محتاط اور مناسب جواب کا انتخاب کرے گا۔ ایران کے ردعمل کا ایک منظر نامہ یہ ہے کہ وہ اپنے علاقائی اتحادیوں جیسے حماس اور حزب اللہ کی مزید مدد کرتے ہوئے صیہونی حکومت کے مفادات پر حملہ کرے گا اور اس طرح غاصب صیہونی حکومت کو فیصلہ کن پیغام دے گا کہ کسی بھی جارحیت کا سخت جواب ملے گا۔ ایران کے ردعمل کا ایک اور منظر نامہ یہ ہے کہ وہ براہ راست تنازعات میں اضافے سے گریز کرے گا اور بین الاقوامی سطح پر صیہونی حکومت کی اس جارحیت کی مذمت کرنے کی کوشش کرے اور یہ ثابت کرے گا کہ ایران بین الاقوامی قوانین کا پابند ہے۔ یہ متوازن ردعمل ایران کو داخلی استحکام کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی مزاحمتی طاقت کا مظاہرہ کرنے اور ہمہ گیر جنگ کے جال میں پھنسنے سے بچنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
مہر نیوز: صیہونی حکومت کے بعض اتحادیوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے ماضی میں انتباہ کے اردن جیسے بعض پڑوسی ممالک نے صہیونی حکومت کو فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے دی؛ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ناصر ابوشریف: سعودی عرب اور اردن نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے صیہونی حکومت کو ایران پر حملے کے لیے اپنی فضائی حدود فراہم نہیں کیں۔ ان کا یہ موقف ظاہر کرتا ہے کہ وہ علاقائی تنازعات میں براہ راست شریک ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تاہم اگر یہ ثابت ہو جائے کہ تعاون ہوا ہے تو یہ عمل امت مسلمہ کے ساتھ صریح خیانت ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض ممالک کی پالیسیاں عرب ممالک اور مسلمانوں کے مفادات سے متصادم ہیں۔
علاقے میں عبوری صیہونی حکومت کے اتحادی اور کوئی بھی ملک جو اس حکومت کو ہمسایہ ملک کے خلاف حملے کرنے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے، صہیونی حکومت کی توسیع پسندانہ حکمت عملی میں عملی طور پر شریک ہیں۔ اس طرح کی پالیسیوں سے یہ ممالک نہ صرف علاقائی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ صیہونی حکومت کو اپنے اہداف کے حصول کا موقع بھی فراہم کررہے ہیں، اس طرح خطے کی سلامتی اور استحکام کو شدید خطرہ لاحق ہوگا۔
مہر نیوز: کیا ایران پر حملے کے بعد صیہونی حکومت کے دعوے درست تھے؟ کیا یہ حملہ غاصب صہیونی حکومت کے لیے فوجی کارنامہ تھا؟
ناصر ابوشریف: غاصب صہیونی صیہونی حکومت کا ایران پر حملہ حکمت عملی کے حوالے سے محدود تھا۔ بڑی تعداد میں طیاروں اور جدید ترین الیکٹرانک آلات کے باوجود صہیونی فضائیہ ایران کے جدید دفاعی نظام کا مقابلہ نہ کرسکی۔ ایران کا فضائی دفاعی نظام اس حملے کا بخوبی مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا اور زیادہ تر صیہونی حملوں کو بے اثر کر دیا۔ ایران کے فضائی دفاعی نظام کی اس تیاری اور موثر کارکردگی نے نہ صرف بڑے نقصان کو روکا بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ ایران بڑے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگرچہ صیہونی حکومت کے حملے میں ایران کے پانچ فوجی شہید ہوئے لیکن یہ غاصب حکومت کی اسٹریٹجک ناکامی ہے۔ غاصب صہیونی حکومت کا حملہ ایران کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہے۔
خطے میں موجود صیہونی حکومت کے اتحادی ممالک خواہ وہ براہ راست اس آپریشن میں شریک ہوں یا اس کو دور سے اس کی تائید کرتے ہوں، ان پر اپنے عوام کے تئیں بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان ممالک نے امت مسلمہ کا نظریاتی دفاع اور خطے کی سلامتی کی حمایت کے بجائے صہیونی حکومت سے گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ ان ممالک کے اس کردار سے خطے میں بدامنی پھیلے گی اور خطرات میں مزید اضافہ ہوگا۔
مہر نیوز: حزب اللہ نے شیخ نعیم قاسم کو سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین کا جانشین منتخب کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس انتخاب کا کیا مطلب ہے کہ اس انتخاب کے فوراً بعد صیہونی حکومت کے وزیر جنگ گیلانت نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا: عارضی تقرری میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ صیہونی حکومت کے وزیر توانائی ایلی کوہن نے بھی اعتراف کیا: "جو بھی اس جماعت کا سربراہ بنے گا اس کو نشانہ بنایا جائے گا؟!"
ناصرابوشریف: شہید سید حسن نصر اللہ کی جگہ شیخ نعیم قاسم کا حزب اللہ کا سیکرٹری جنرل منتخب ہونا صیہونی دشمن اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک فیصلہ کن اور معنی خیز پیغام ہے۔ اس فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنانی مقاومت اپنے اصولوں پر قائم ہے اور ایک طویل جنگ کے لیے تیار ہے۔ شیخ نعیم قاسم جو کئی سالوں سے شہید سید حسن نصر اللہ کے ساتھ مزاحمت کی صف اول میں رہے ہیں، حزب اللہ کی مزاحمت کے تسلسل کی علامت ہیں۔
شیخ نعیم قاسم کو سید حسن نصر اللہ کے جانشین کے طور پر منتخب کرکے حزب اللہ صیہونی حکومت کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ مزاحمت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور اپنے مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔ شیخ نعیم قاسم کا "طویل جنگ" کی تیاری پر زور یہ ظاہر کرتا ہے کہ حزب اللہ سمجھوتے سے گریز کرے گی اور کسی بھی قیمت پر اپنی سرزمین اور حقوق کا دفاع کرے گی۔
شیخ نعیم قاسم کا نیا سیکرٹری جنرل منتخب ہونا امریکہ کے لیے ایک پیغام ہے کہ پابندیاں اور دباؤ مزاحمت کے جذبے کو متاثر نہیں کریں گے۔ شیخ نعیم قاسم نے امریکی سفیر سے یہ بھی کہا کہ آپ خوابوں میں بھی مزاحمت کو شکست نہیں دے سکیں گے۔ اس سے بیرونی دباؤ کے سامنے مزاحمت کا عزم ظاہر ہوتا ہے۔
شہید سید حسن نصراللہ کے جانشین کے طور پر شیخ نعیم قاسم کا انتخاب نہ صرف قیادت کی تبدیلی ہے بلکہ مزاحمت کے دشمنوں اور دوستوں کے لیے ایک تزویراتی پیغام بھی ہے۔ شیخ نعیم قاسم لبنانی مزاحمتی حلقوں میں ایک تجربہ کار اور قابل احترام شخصیت ہیں اور یہ انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ حزب اللہ اپنے کمانڈروں کی شہادت کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے اور دشمن دھمکیوں اور قتل و غارت سے حزب اللہ کو جھکا نہیں سکتا۔ درحقیقت شیخ نعیم قاسم کا انتخاب مزاحمت کے تمام دشمنوں کے لیے اعلان ہے کہ حزب اللہ اپنے اصولوں پر کاربند ہے اور اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ دشمن کو سمجھنا چاہیے کہ مزاحمت نہ صرف ہار نہیں مان رہی ہے، بلکہ اپنی نئی قیادت کے ساتھ، وہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑی فتوحات کے لیے تیار ہے۔
مہر نیوز: گزشتہ روز شیخ نعیم قاسم نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر کی۔ آپ ان کے بیانات کو کیسے دیکھتے ہیں؟
ناصر ابوشریف: شیخ نعیم قاسم کا یہ بیان کہ "فرنٹ لائن پر لڑنے والے شہید ہوتے ہیں" خود قربانی کے اس جذبے کو ظاہر کرتا ہے جو لبنان کی مزاحمت میں بہت گہرا ہے۔ یہ نقطہ نظر حزب اللہ کو دھمکانے اور دباؤ ڈالنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام کرنے کے لئے کافی ہے۔
نومنتخب سکریٹری جنرل نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مزاحمت نے دشمن کے ٹینکوں، جنگی آلات اور ڈرون کو مار گرایا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ صیہونی حکومت کو شدید ضربیں لگانے اور انہیں اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ شیخ نعیم نے صیہونی حکومت سے کہا کہ وہ مزید نقصانات سے بچنے کے لیے لبنانی سرزمین سے دستبردار ہو جائے۔ یہ پیغام اس غاصب حکومت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے کہ حزب اللہ ان کو بھاری نقصان پہنچا سکتی ہے اور ان نقصانات سے بچنے کا واحد راستہ جارحیت کو ختم کرنا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے تاکید کی کہ یہ جنگ قربانیوں کی متقاضی ہے اور حزب اللہ عوام کے تعاون سے جنگ کے بعد اپنی سرزمین کی تعمیر نو کے لیے تیار ہے۔ یہ بیانات مشکلات کو برداشت کرنے کے لیے مزاحمت کی تیاری اور جدوجہد میں استقامت کو ظاہر کرتے ہیں۔