مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ صہیونی حکومت کے خلاف فلسطینی مقاومتی تنظیموں کی جانب سے طوفان الاقصی آپریشن کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس موقع پر بنیادی سوال یہ ہوتا ہے کہ حماس کے مجاہدین نے اس آپریشن کو کیوں انجام دیا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
1۔ طوفان الاقصی کیوں برپا ہوا؟
7 اکتوبر 2023 کو فلسطینیوں نے صہیونی حکومت کے خلاف بھرپور کاروائی کی۔ حماس کے مجاہدین نے زمین، فضا اور سمندر سے مقبوضہ علاقوں پر حملہ کیا۔ یہ صہیونی حکومت کی فوجی اور انٹیلی جنس سطح پر شدید ناکامی تھی جس کی گذشتہ 75 سالوں کے دوران مثال نہیں ملتی ہے۔
فلسطین کے امور کے ماہر حسین رویوران نے طوفان الاقصی کی اہمیت کے بارے میں کہا کہ اس آپریشن نے صہیونی حکومت کے کئی ریڈ لائنز عبور کیے۔ سب سے پہلا یہ کہ صہیونیوں کو بہت زیادہ جانی نقصان ہوا۔ دوسرا دارالحکومت تل ابیب خطرے میں پڑگیا تیسرا دفاعی اور انٹیلی جنس شعبے کی ناکامی کھل کر سامنے آئی۔
طوفان الاقصی کی متعدد وجوہات ہیں۔ ذیل میں بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
الف۔ ناقابل برداشت حالات
فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکے اسرائیل وجود میں لایا گیا۔ اس ناجائز حکومت کی تشکیل کے پہلے دن سے ہی فلسطینیوں کی مشکلات میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ حالات فلسطینیوں کی برداشت سے باہر ہوئے۔
فلسطینیوں کی زمینوں اور مکانات پر قبضے کا عمل جاری رہا۔ یہودی آبادکاری کے نتیجے میں فلسطینیوں کو اپنے گھر بار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
گذشتہ 17 سالوں سے غزہ کو فلسطینیوں کا بے رحمانہ طریقے سے محاصرہ کیا گیا تھا۔ بیماروں کو بھی علاج کے لئے باہر لے جانا ممکن نہ تھا۔ باہر سے آنے والی امداد غزہ تک نہیں پہنچتی تھی۔
ایران میں تحریک جہاد اسلامی فلسطین کے نمائندے ناصر ابوشریف کے مطابق غزہ کو ملنے والی امداد اتنی کم ہے کہ عوام زندہ ہی رہ سکتے ہیں۔ 60 فیصد فلسطینی بے روزگار ہیں۔ صہیونی حکومت کے مسلسل حملوں کی وجہ سے ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوگئے ہیں۔
حماس نے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد ایک بیان میں وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی پانچ جنگوں کی وجہ سے ویران ہوگئی ہے۔ ہر دفعہ اسرائیل نے جنگ شروع کی ہے۔ 2000 سے لے کر 2023 تک صہیونی غاصب حکومت نے 11 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید اور ڈیڑھ لاکھ سے زائد کو زخمی کردیا ہے جن میں اکثریت سویلین ہے۔
ب۔ طوفان الاقصی اپنی شناخت اور وجود برقرار رکھنے کی جنگ
دیگر مشکلات کے ساتھ صہیونی حکومت فلسطینیوں کے وجود کے لئے خطرہ بن چکی تھی۔ غاصب صہیونی فلسطینیوں کی زمینوں پر مکمل قبضہ کرنے کی کوششوں میں تھے۔ بن گویر اور اسموتریچ جیسے انتہا پسند وزیر کہتے تھے کہ فلسطینیوں کا الگ وطن ہونا چاہئے۔ ان کو فلسطین سے مکمل خارج کردینا چاہئے۔
صہیونی حکومت نے بیت المقدس کو یہودی ملکیت میں لانا شروع کیا تھا۔ بیت المقدس دینی اور تاریخی لحاظ فلسطینیوں کی ملکیت میں رہا ہے لیکن صہیونیوں نے اس کو یہودی ملکیت میں لانے کی بھرپور کوشش کی۔ صہیونیوں نے ایک خودمختار فلسطین کی تشکیل کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں ڈالیں۔ چنانچہ حماس نے اس حوالے سے جاری اپنے بیان میں کہا تھا کہ طوفان الاقصی مسئلہ فلسطین کو ختم کرنے کی صہیونیوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ضروری تھا۔ تل ابیب فلسطینیوں کی زمینوں اور بیت المقدس پر قبضے کی سازش کررہا تھا۔ طوفان الاقصی غزہ کا سترہ سال محاصرہ ختم کرنے کے لئے ضروری تھا۔
ج۔ صہیونی کابینہ میں انتہا پسندوں کا اثر و رسوخ
2019 سے 2022 تک پانچ مرتبہ پے در پے انتخابات کے بعد نتن یاہو کی سربراہی میں نسل پرست انتہا پسندوں کی حکومت قائم ہوگئی جس سے فلسطینیوں پر دباو میں اضافہ ہوا۔ طوفان الاقصی سے ایک سال پہلے انتہاپسندوں کی کابینہ تشکیل پانے سے طوفان الاقصی کی راہ ہموار ہونا شروع ہوگئی۔ وائٹ ہاؤس کے حکام کے مطابق بھی یہ اسرائیل کی سب سے انتہا پسند کابینہ ہے جس نے اپنی تشکیل کے ابتدائی دن سے ہی فلسطینیوں اور مسلمانوں کے خلاف اقدامات شروع کیے اور ان کو اذیت دینا شروع کی۔
اس کابینہ کی تشکیل کے بعد مسلمانوں اور صہیونیوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔ فلسطینیوں کے خلاف ان کی سرزمین پر ہی تشدد آمیز کاروائیوں میں اضافہ ہوا۔ جو فلسطینی اپنا گھر بار بیچنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس کو صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں تشدد کا سامنا ہوتا۔ صہیونی حکومت شہر کی تعمیر نو کے بہانے ان گھروں کو خالی کرنے کا حکم دیتی تھی۔ ان کاروائیوں کی وجہ سے حماس کے اندر جوابی کاروائی کی سوچ پنپنے لگی۔ حماس کے مجاہدین نے اقوام متحدہ کے منشور کے تحت اپنے گھر بار کے تحفظ کے لئے یہ کاروائی انجام دی۔
د۔ عدالت کے اجراء میں عالمی برادری کی ناکامی اور فلسطینیوں کی مایوسی
عالمی برادری اور اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی ادارے فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع کرنے اور صہیونی جنایات کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوگئی۔ غزہ کے خلاف جنگ اور محاصرہ بھی عالمی برادری کو اس کے وظایف اور انسانی حقوق کی طرف متوجہ کرانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ جنگی جرائم پر صہیونی حکومت کو انصاف کٹہرے میں لانے میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے بری طرح ناکام ہوگئے۔ فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی کو مکمل نظرانداز کیا گیا۔ فلسطینیوں کے گھروں اور زمینوں پر قبضہ کرکے ہجرت پر مجبور کیا گیا؛ غذا اور دوائی تک رسائی ناممکن بنادی گئی اور زمینی، فضائی اور بحری حملوں کے ذریعے ان کا قتل عام کیا گیا۔
عالمی طاقتوں اور انسانی حقوق کے دعویداروں نے ان حقائق سے نہ صرف نظریں چرائیں بلکہ صہیونی حکومت کی حمایت کی۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے سینچری ڈیل کا منصوبہ پیش کیا اور عرب ممالک کو صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر مائل کرنا شروع کیا۔ ان حالات میں فلسطینیوں کی گوشہ نشینی اور محرومی میں مزید اضافہ ہوا۔ عالمی طاقتوں اور عرب ممالک کے رویے نے مایوس فلسطینیوں کو طوفان برپا کرنے پر مجبور کردیا۔ فلسطینی اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ صہیونی مظالم کا مقابلہ کرنے کے لئے خود فلسطینیوں کو کچھ کرنا ہوگا۔
2۔ فلسطینی عوام پر طوفان الاقصی کے نتائج اور اثرات
طوفان الاقصی نے خطے اور عالمی سطح پر متعدد اثرات مرتب کیے ہیں۔ ذیل میں بعض اثرات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
الف۔ غزہ میں صہیونی حکومت کی نسل کشی اور انفراسٹرکچر کی تباہی
صہیونی حکومت نے گذشتہ ایک سال کے دوران غزہ میں بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ اب تک 42 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 96 ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ غزہ کے بیس لاکھ عوام بے گھر ہوگئے ہیں۔ غربت اور بھوک و افلاس پھیل گئی ہے۔ گذشتہ 17 سالوں سے محاصرے میں گھرے غزہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ شہداء اور زخمیوں میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے جس سے فلسطینی خاندانوں کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔
صہیونی حکومت نے سویلین تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے غزہ شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ طبی مراکز، تعلیمی ادارے، رہائشی مکانات اور پناہ گزین کیمپوں پر روزانہ ہزاروں ٹن دھماکہ خیز مواد پھینکا گیا جس کی وجہ سے غزہ کا انفرسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے۔
ب۔ مقاومتی رہنماؤں کی شہادت
صہیونی حکومت نے غزہ کے خلاف جنگ کے آغاز پر حماس کو مکمل ختم کرنے کو ہدف رکھا تھا تاہم ایک سال گزرنے کے بعد نتن یاہو حکومت اس میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ صہیونی حکومت نے حماس کے عسکری اور سیاسی رہنماوں کو شہید کردیا ہے۔ رہنماوں کی شہادت سے حماس کو بڑا نقصان ہوا ہے تاکہ حماس اب بھی زندہ اور پوری طرح فعال ہے۔ غزہ کے عوام مقاومتی تنظیم کے ساتھ ہیں۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد یحیی سنوار کی قیادت میں حماس متحد اور منظم ہے۔
ج۔ عالمی سطح پر مسئلہ فلسطین کا دوبارہ اجاگر ہونا
طوفان الاقصی سے پہلے دنیا مسئلہ فلسطین کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھی۔ حماس نے سات اکتوبر کو کاروائی کرکے دنیا کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرائی اور عالمی فورمز پر مسئلہ فلسطین کے بارے میں بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔ غزہ میں جنگی جرائم کی وجہ سے جنوبی افریقہ اور الجزائر جیسے ممالک نے عالمی عدالت میں صہیونی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ خودمختار فلسطین کی تشکیل کے مطالبات زور پکڑنے لگے۔ اسپین اور ناروے جیسے یورپی ممالک نے خودمختار فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔
3۔ صہیونی حکومت پر طوفان الاقصی کے اثرات
ایک سال تک غزہ میں بربریت اور جنگی جرائم انجام دینے کے باوجود صہیونی حکومت اس سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ ذیل میں طوفان الاقصی کے صہیونی حکومت پر چند اثرات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
الف۔ جنگی اہداف کے حصول میں بری طرح ناکامی
رہبر معظم کے بقول طوفان الاقصی صہیونی حکومت کی عسکری اور انٹیلی جنس کی بڑی شکست ہے۔ صہیونی مبصرین نے طوفان الاقصی کو اسرائیل کی بڑی شکست سے تعبیر کیا اور کہا کہ ہم نے پوری زندگی میں اتنی بڑی شکست اور خفت کا نہیں سوچا تھا۔
رہبر معظم کے مطابق طوفان الاقصی نے صہیونی ایوانوں میں زلزلہ برپا کردیا اور حکومتی ایوانوں کو ویران کردیا جس کو دوبارہ تعمیر کرنا ممکن نہیں۔ پوری دنیا کی حمایت کے باوجود صہیونی حکومت دوبارہ تعمیر نو نہیں کرسکے گی۔ یہ نقصان قابل تلافی نہیں ہے۔
طوفان الاقصی میں ہونے والی خفت سے حواس باختہ نتن یاہو نے غزہ پر چڑھائی کردی اور کئی اہداف بیان کیے جن میں سے حماس کی نابودی اور صہیونی یرغمالیوں کی رہائی سرفہرست تھیں۔ ایک سال کے دوران غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی لیکن صہیونی حکومت ان دونوں اہم اہداف کے حصول میں بری طرح ناکام ہوگئی۔
ب۔ شدید دفاعی نقصان
گذشتہ ایک سال کے دوان صہیونی فوج کو غزہ میں شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اگست میں جاری ہونے والی وزارت جنگ کی رپورٹ کے مطابق اب تک 3700 صہیونی فوجی معذور ہوگئے ہیں۔ صہیونی فوج جانی نقصان کو سامنے نہیں لاتی ہے تاہم اس کے اعتراف کے مطابق اب تک 710 فوجی غزہ میں ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ غیر جانبدار ذرائع کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ القسام بریگیڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے جوانوں نے غزہ کے مختلف مقامات پر حملوں میں صہیونی فوج کے 1108 اہلکاروں کو ہلاک کردیا ہے۔
ج۔ اقتصادی مشکلات اور سنگین جنگی اخراجات
غزہ کی جنگ میں صہیونی حکومت کے مالی اخراجات کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صہیونی اعلی حکام کے مطابق 2025 کے آخر تک صہیونی حکومت کے جنگی اخراجات 66 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ یہ اخراجات حزب اللہ کے ساتھ ہونے والی جنگ کے اخراجات سے الگ ہیں۔ جنگی اخراجات میں اضافے کی وجہ سے صہیونی حکومت کو بجٹ میں کٹوتی کا سامنا ہے۔ صہیونی وزارت اقتصاد نے کہا ہے کہ غزہ کی جنگ کی وجہ سے اقتصادی ترقی کی شرح میں بہت کمی آئی ہے۔
اقتصادی رینکنگ اور ریٹنگ کے بین الاقوامی اداے موڈیز نے صہیونی حکومت کی درجہ بندی میں مزید کمی کردی ہے۔ رواں سال کے دوران یہ مرتبہ ایسا کیا گیا ہے۔
د۔ صہیونی کابینہ میں کشیدگی اور حکومت اور عوام کے درمیان فاصلے میں اضافہ
نتن یاہو کی پالیسیوں کی وجہ سے صہیونی کابینہ میں اختلافات کی خبریں میڈیا کی زینت بن رہی ہیں۔ وزیراعظم اور وزیرجنگ کے درمیان اختلافات سامنے آئے۔ صہیونی یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی اور اقتصادی مشکلات کی وجہ سے عوام کا حکومت پر اعتبار ختم ہوگیا۔ تل ابیب اور بڑے شہروں میں نتن یاہو حکومت کے خلاف بڑے مظاہرے ہونے لگے۔ تل ابیب میں پندرہ لاکھ صہیونیوں نے نتن یاہو کابینہ کے خلاف احتجاج کیا اور سیاسی مفادات کی جنگ کو ختم کرنے اور حماس کے ساتھ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کیا۔
4۔ مشرق وسطی پر طوفان الاقصی کے اثرات
طوفان الاقصی نے مشرق وسطی پر بھی دور رس اثرات مرتب کیے اور صہیونی حکومت کے بارے میں علاقائی ممالک کی پالیسیوں کو متزلزل کردیا۔
الف۔ صہیونی حکومت کے خلاف کئی محاذیں
غزہ میں صہیونی حکومت کی فلسطینی عوام پر جارحیت اور بربریت نے خطے کے حریت پسندوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑ دیا اور فلسطینی مقاومت کو خطے میں حمایت حاصل ہونے لگی۔ شمالی سرحدوں پر حزب اللہ، بحیرہ احمر کی جانب سے یمنی اور خلیج فارس کی جانب سے عراقی مقاومت نے صہیونی حکومت کے خلاف سر اٹھانا شروع کیا۔ صہیونی حکومت پر کئی جانب سے میزائل اور راکٹ حملے شروع ہوگئے جس سے اس پر دباو بڑھ گیا۔
طوفان الاقصی کو ایک سال گزرنے کے بعد صہیونی حکومت خود کو مقاومت کے نرغے میں پاتی ہے اور بیک وقت کئی محاذوں جنگ میں مصروف ہے۔ اس وجہ سے صہیونی حکومت غزہ پر پوری توجہ مرکوز کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ مقاومت کی جانب سے مختلف اطراف سے حملوں کے بعد صہیونیوں کی نقل مکانی میں اضافہ ہوا ہے۔ مقبوضہ فلسطین کی شمالی اور جنوبی سرحدوں پر آباد صہیونی ہجرت کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
ب۔ ایران اور صہیونی حکومت کا براہ راست تصادم
گذشتہ ایک سال کے دوران صہیونی حکومت کی شرارتوں کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی سرزمین سے براہ راست اسرائیل کے خلاف کاروائی کی ہے۔ صہیونی حکومت نے کئی مرتبہ ایران کو اس جنگ میں کھینچنے کی کوشش کی تاکہ ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ چھڑ جائے۔ ایران نے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے مشرق وسطی میں جاری کشیدگی کو بڑھاوا دینے کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔
شام میں ایرانی قونصلیٹ پر حملے اور فوجی مشیروں کی شہادت کے بعد ایران نے اسرائیل کے خلاف کاروائی کی۔ اس کے بعد صہیونی حکومت نے اپنی شرارتوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پہلے تہران میں صدر پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شریک اسماعیل ہنیہ کو شہید کردیا اور 27 ستمبر کو حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ اور سپاہ پاسداران انقلاب کے جنرل نیلفروشان کو بیروت میں شہید کردیا۔ ان قاعات کے بعد ایران کے صبر کا دامن لبریز ہوگیا اور منگل کی رات اسرائیل کی دفاعی تنصیبات پر بیلسٹک میزائل داغے۔
ایران کے میزائل حملوں کی وجہ سے سید حسن نصراللہ کی شہادت کی خوشی سے سرشار نتن یاہو اور صہیونی کابینہ میں صف ماتم بچھ گئی۔ صہیونی دفاعی سسٹم ایرانی میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا اور نتن یاہو عجلت کے ساتھ پناہ گاہ میں جانے پر مجبور ہوئے۔
سپاہ پاسداران انقلاب نے حملے کے بعد بیان میں کہا کہ میزائلوں نے نوے فیصد اہداف کو نشانہ بنایا۔ صہیونی فوج اور عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی صہیونی فوجی تنصیبات پر ایرانی میزائل گرنے کی خبروں کی تصدیق کی۔
اسرائیل پر میزائل حملوں کے بعد رہبر معظم کا نماز جمعہ کے اجتماع میں خطبہ اہمیت اختیار کرگیا تھا۔ انہوں نے سپاہ پاسداران انقلاب کی قدردانی کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی ذمہ داری انجام دینے میں نہ سستی کرے گا اور نہ جلد بازی۔ ضرورت محسوس کی گئی تو آئندہ بھی ایسے اقدامات انجام دیے جائیں گے۔
5۔ طوفان الاقصی کے عالمی سطح پر اثرات
طوفان الاقصی نے عالمی سطح پر بھی کئی اثرات مرتب کیے ہیں۔
الف۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قدر میں کمی
فلسطین اور لبنان پر ہر روز صہیونی حکومت کی جانب سے ہزاروں ٹن وزنی بموں کی بارش سے واضح ہوگیا کہ اقوام متحدہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ غزہ میں جنگ بندی اور صہیونی حکومت کو جارحیت سے روکنے کے لئے ویٹو پاور بڑی رکاوٹ ہے۔ مغربی ممالک کے نزدیک حقوق انسانی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ غیر مستقل اراکین نے کئی بار غزہ میں جنگ بندی کے لئے قرارداد پیش کی لیکن امریکہ نے ویٹو کرکے ناکام بنادی۔
گذشتہ ایک سال کے واقعات نے واضح کردیا کہ اقوام متحدہ امریکی آلہ کار ہے جس کو وہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یہ ادارہ عالمی سطح پر نسل کشی اور نسل پرستی کے واقعات کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا ہے۔ غزہ میں صہیونی حکومت کی نسل کشی سے عالمی برادری پر یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ اقوام متحدہ ان اہم مواقع پر اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرسکتا ہے۔ امریکی رویے کی وجہ سے عالمی ادارے کا وقار بری طرح مجروح ہوا ہے۔
ب۔ مشرق وسطی کے بارے میں امریکی پالیسی میں تبدیلی
گذشتہ چند سالوں کے دوران صہیونی حکومت کی طاقت بڑھنے کی وجہ سے امریکہ نے مشرق وسطی سے اپنی توجہ مشرقی ایشیا پر مرکوز کرنا شروع کیا تھا تاکہ چین کے خطرے کا مقابلہ کیا جاسکے۔ طوفان الاقصی میں صہیونی حکومت کی ہزیمت آمیز شکست اور مقاومتی محاذ کی طاقت نے امریکہ کو مشرق وسطی کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی پر مجبور کردیا۔
حزب اللہ اور ایران کے ساتھ صہیونی حکومت کی براہ راست جنگ کی صورت میں امریکہ کو اس سے لاتعلق رکھنا بہت مشکل ہوگا اگرچہ امریکہ نے اب تک خود کو اس جنگ سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے تاہم مستقبل میں جنگ میں کودنے پر مجبور امریکہ مجبور بھی ہوسکتا ہے۔
نتیجہ
صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق کی مسلسل پامالی اور مظالم کی وجہ سے حماس نے ایک سال پہلے طوفان الاقصی برپا کردیا جو کہ رہبر معظم کے مطابق بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں قانونی اور معقول کاروائی تھی۔ ایک سال گزرنے کے بعد اس طوفان نے مشرق وسطی اور عالمی سطح پر نہایت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔