مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غزہ کی پٹی پر نہتے فلسطینیوں کے خلاف کئی مہینوں سے اسرائیل کے وحشیانہ حملے جاری ہیں جس میں لاکھوں فلسطینی شہید اور زخمی ہو چکے ہیں۔ بے گناہ فلسطینیوں کا اسرائیلی کے ہاتھوں قتل عام پوری دنیا میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کا باعث بنا ہے۔ دنیا بھر میں فلسطینیوں کی حمایت اور صہیونی حکومت کے جرائم کی مذمت میں متعدد احتجاجی جلوس نکالے گئے ہیں۔ اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں عوام مسلسل غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینیوں کے خلاف صہیونی جارحیت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہر سال مکہ میں مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع ہوتا ہے جس میں دنیا کے مختلف حصوں سے مسلمان مناسک حج کی ادائیگی کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ اس عظیم اجتماع کو غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف غاصب صہیونی حکومت کے مظالم کے خلاف احتجاج کا اہم موقع سمجھا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سعودی حکام نے اعلان کیا ہے کہ حجاج کو صہیونی حکومت کے خلاف کسی احتجاج یا نعرے بازی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سعودی عرب کے اس بیان کے بعد مسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل آرہا ہے اور مبصرین سعودی عرب کے فیصلے کی شدید مذمت کررہے ہیں۔ ترک خاتون مبصر اور محقق ڈاکٹر ڈینز کینر نے مہر نیوز ایجنسی کو اس حوالے سے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں صہیونی حکومت کے مظالم کے بعد جدید مشرق وسطی تشکیل پارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی اسلامی ممالک اسرائیل کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اس کی حفاظت کی جاسکے۔
ڈاکٹر ڈینز نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ آج سعودی عرب سمیت بعض ممالک میں نسل کشی جیسا لفظ استعمال کرنے پر پابندی ہے اسی طرح ان ممالک میں فلسطین کا پرچم لہرانا جرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کو اپنی حیثیت کے مطابق فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت کرنا چاہئے۔ افسوس کی بات ہے کہ اسلامی ممالک غزہ میں فلسطینیوں پر صہیونی حکومت کے مظالم کو روکنے میں ناکام ہیں۔