مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ(سجاد مرادی کلاردہ): طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز میں صیہونی مین اسٹریم میڈیا نے فوجی حکام کے بیانات کی بنیاد پر حماس کی جیلوں میں موجود صیہونی قیدیوں کی صورت حال کو قابل رحم دکھانے کی کوشش کی۔ اس میڈیا پروپیگنڈے کی شدت اس قدر وسیع تھی کہ صیہونیوں نے حماس کو داعش دہشت گرد گروہ سے تشبیہ دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر "HamasisISIS# " کا ہیش ٹیگ استعمال کیا۔
لیکن عارضی جنگ بندی کے دوران جب قیدیوں کے تبادلے کا وقت آیا تو یہ بات واضح ہوگئی کہ صیہونی میڈیا کے پروپیگنڈے کے برعکس قیدیوں کے ساتھ حماس کا رویہ نہایت مشفقانہ تھا جب کہ صیہونی حکومت کی جیل میں موجود فلسطینی قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا۔
قیدیوں کے ساتھ حماس کا رویہ
اسرائیلی قیدیوں کے ساتھ حماس کے اچھے برتاو کو ثابت کرنے کا بہترین ذریعہ رہائی پانے والے قیدیوں کے انٹرویوز ہیں۔ جس کی واضح مثال گیلاد شالیت نامی اسیر سپاہی ہے جسے 2006 میں حماس نے پکڑ لیا تھا جس2011 میں 1027 فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تبادلہ ہوا۔
انہوں نے اپنی رہائی کے بعد حماس کے برتاو کے بارے میں کہا کہ ان پانچ سالوں کی اسیری کے دوران، حماس نے مجھے مکمل صحت مند رکھنے کی کوشش کی۔" حراست کے دوران، میرے پاس اخبار اور ریڈیو تھا اور میں نے لذیذ کھانا کھایا۔ میں نے اسیری کے دوران اسلام کے بارے میں بہت کچھ سیکھا اور بہت سی کتابیں پڑھیں۔
حماس کے طرز عمل کی قرآنی بنیاد
فلسطینی جیلوں سے رہائی پانے والے بیشتر قیدیوں کا کہنا تھا کہ حماس فورسز نے انہیں بتایا کہ قرآن ہمیں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کی اجازت نہیں دیتا۔
آپریشن طوفان الاقصی کے پہلے دن حماس کے ہاتھوں پکڑی جانے والی 85 سالہ خاتون یوچاویڈ لیفشٹز نے اپنی رہائی کے بعد کہا کہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ قرآن پاک پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ انہوں نے ہمیں وہی حالات فراہم کیے جو سرنگوں میں تھے۔
حماس کا انسانی برتاؤ
رہائی پانے والے بیشتر قیدیوں نے جس مسئلے پر زور دیا ہے وہ انسانی رویہ ہے۔
صیہونی حکومت کی حامی "واللا" ویب سائٹ نے رہائی پانے والے قیدیوں کے اہل خانہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں لکھا ہے کہ "ان کی غزہ میں گرفتاری کے بعد نہ صرف ان پر تشدد نہیں ہوا بلکہ ان کے ساتھ نہایت انسانی برتاو کیا گیا ۔
قیدیوں صحت کی دیکھ بھال
قیدیوں کی ہیلتھ کیئرنگ حماس کے رویے کا ایک اہم جز ہے۔ Lifshitz نے کہا کہ "انہوں نے اپنے قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ پہلے ہم ایک بڑے ہال میں داخل ہوئے، چند گھنٹوں کے بعد انہوں نے قیدیوں کو الگ کمرے میں ڈال دیا۔ ہماری صحت کا خیال رکھنے کے لیے ایک ڈاکٹر کو مقرر کیا گیا تھا۔ یہ ڈاکٹر ہر چند دن بعد دوائی لے کر آتا تھا اور ہماری صحت کے بارے میں معلوم کرتا تھا۔
تشدد سے گریز کی پالیسی
فلسطینی اسلامی مزاحمتی قوتوں کی قید سے رہائی پانے والے زیادہ تر صہیونی قیدیوں نے حماس کے مناسب برتاو کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کسی بھی طرح سے تشدد یا توہین کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔
صیہونی رجیم کے چینل 13 کے صحافی بین ڈیوڈ نے بتایا کہ رہائی پانے والے کچھ قیدیوں نے انہیں بتایا کہ حماس کے عناصر نے ہر قصبے سے تمام قیدیوں کو اکٹھا کیا ہے تاکہ وہ زیادہ آرام محسوس کریں۔
ایک صہیونی اسیر لیویچ نے اپنی رہائی کے بعد پریس کانفرنس میں کہا، "حماس کے اہلکار ان کے ساتھ شفقت سے پیش آئے، اسے کھانا اور دوائیاں دی اور اس کے لیے ڈاکٹر کا انتظام تک کیا۔"
قیدیوں کے ان بیانات کو صیہونی حکام نے حماس کے دباو کا اثر قرار دیتے ہوئے رہائی پانے والے قیدیوں کے میڈیا کے ساتھ انٹرویوز پر پابندی لگا دی تھی۔
بچوں کے ساتھ حسن سلوک
حماس کی طرف سے بچوں کے قتل کے بارے میں ابتدائی دعووں کے برعکس رہائی پانے والے قیدیوں نے بتایا کہ اس گروپ کے ارکان بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔ ایک آبادکار قیدی جسے مزاحمتی قوتوں نے آپریشن سٹارم کے آغاز میں اپنے خاندان کے ساتھ پکڑا تھا، نے اپنی رہائی کے بعد حماس فورسز کو لکھے گئے ایک خط میں لکھا: "میں اپنی بیٹی ایمیلیا کے بارے میں آپ کی توقعات سے بڑھ کر انسان دوستی کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وہ آپ سب کو اپنا دوست سمجھتی ہے، نہ صرف دوست بلکہ سچا مددگار۔ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ان کے لیے ایک سرپرست کے طور پر کئی گھنٹے گزارے ۔ میری بیٹی کے ساتھ نیک برتاو کے لیے آپ کا شکریہ۔
اب میری بیٹی خود کو غزہ کی ملکہ سمجھتی ہے۔ میں ہمیشہ آپ کا مقروض ہوں۔
24 نومبر کو رہا ہونے والی صہیونی اسیر خاتون روتی موندر نے یہ بھی بتایا کہ "اپنی اسیری کے دوران اس نے اپنا سارا وقت اپنی بیٹی اور پوتے کے ساتھ گزارا اور انہوں نے اپنی پوتی کی نویں سالگرہ بھی غزہ میں منائی۔
صیہونی حکومت کا قیدیوں کے ساتھ سلوک
حماس کے انسانی روئے کے برعکس صیہونی حکومت نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے اور اپنی سرحدوں کو وسیع کرنے کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے مختلف اقدامات کا سہارا لیا ہے۔
جیسے قیدیوں کو سخت حالات میں رکھنا، پرتشدد پوچھ گچھ، اور خواتین کے خلاف تشدد ان طریقوں میں سے کچھ ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے محکمہ امور اسیران کے نومبر 2023 کے اعدادوشمار کے مطابق صیہونی رجیم کی جیلوں میں فلسطینی اسیران کی تعداد 7800 سے زائد ہے جن میں 300 بچے اور 72 خواتین شامل ہیں۔ حکومت کی جیلیں حکومت کی وزارت قومی سلامتی کی نگرانی میں ہیں، جس کی سربراہی اس وقت Itmar Benguir کے پاس ہے، جو ہمیشہ فلسطینی قیدیوں کے خلاف سخت اقدامات اور یہاں تک کہ سزائے موت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
قیدیوں کے بارے اس رجیم کے رویے کا جائزہ مندرجہ ذیل اشاریوں کی صورت میں واضح کیا جاسکتا ہے۔
بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور پوچھ گچھ
بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور پوچھ گچھ فلسطینی قیدیوں کے ساتھ صہیونی سلوک کے اہم اجزاء ہیں۔ فلسطین کے مرکزی ادارہ شماریات کی اپریل 2023 کی رپورٹ کے مطابق 1967 سے اب تک مقبوضہ فلسطین میں تقریباً 10 لاکھ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
قیدیوں اور فلسطینی حکام نے تصدیق کی ہے کہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کرتے ہوئے حکومت حراستی مراکز میں ان کے ساتھ جسمانی حملے اور ذلت آمیز سلوک کر رہی ہے۔
8 نومبر 2023 کو ایک بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ اسرائیل تیزی سے انتظامی حراست کا سہارا لے رہا ہے، جو بغیر کسی الزام یا مقدمے کے بدترین حراست کی ایک شکل ہے۔
ایک 27 سالہ فلسطینی حمزہ القواسمی نے کہا اسرائیلیوں نے مجھے گرفتار کرکے ایک کار میں ڈال دیا اور سوار ہوتے ہی مار پیٹ شروع ہو گئی۔ انہوں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور ہتھکڑیاں لگائیںاور مجھ پر داعش کا رکن ہونے کا الزام لگایا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹوں کے مطابق تفتیش کاروں کو انتظامی حراست میں مکمل اختیار حاصل ہے۔ حکومت کی انسانی حقوق کی تنظیم بیتسلام کا خیال ہے کہ حکومت کی سکیورٹی فورسز ہر سال 1500 سے 1500 فلسطینیوں سے پوچھ گچھ کرتی ہیں اور 85% تفتیش تشدد کے ذریعے کی جاتی ہے۔
غیر انسانی تشدد
صیہونی حکومت نے اکتوبر 1986 میں تشدد کے خلاف کنونشن پر دستخط کیے اور اکتوبر 1991 میں اس کی توثیق کی۔ لیکن پچھلی چند دہائیوں میں اس نے مسلسل تشدد کا سہارا لیا ہے۔ دنیا میں تشدد کے نئے طریقے جن میں سے ایک عام طریقہ بھوت طریقہ ہے۔
برسوں پہلے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اعداد و شمار کے مطابق 87% قیدیوں کو اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس طریقہ کار میں شخص زیادہ دیر تک لٹکا رہتا ہے۔
صیہونی حکومت جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے خلاف تشدد کے 90 سے زیادہ ممنوعہ طریقے استعمال کرتی ہے اور 99 فیصد قیدیوں کو ان اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
فلسطینی قیدیوں کو گرفتاری کے ابتدائی لمحات سے لے کر تفتیش کے دوسرے مراحل تک جیلوں میں ممنوعہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں اپنے اہل خانہ تک رسائی سے بھی محروم رکھا جاتا ہے اور بھاری مالی جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ نومبر میں رہا ہونے والے ایک فلسطینی قیدی شوروق دعوت نے کہا کہ "اگرچہ مجھے جیل سے رہا کر دیا گیا ہے، لیکن مجھے ان خواتین قیدیوں کے بارے میں تشویش ہے جو شدید جبر اور اذیت کے باوجود قید میں ہیں۔"
تفتیش میں تشدد کو تین اہم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے:
1- فلسطینی کارروائیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کرنا، خاص طور پر اس وقت جب کوئی وقت مقرر ہو۔
2- تحریری اعترافات کو بطور ثبوت فوجی عدالتوں میں پیش کرنا۔ زیر حراست افراد، جو اکثر شدید دباؤ میں رہتے ہیں، بے گناہ ظاہر کرنے اور دوسروں کے خلاف معلومات دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ بعض معاملات میں کوئی اور ثبوت نہیں ہوتا، اس لیے یہ اعترافات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
3- رجیم کی سیکورٹی فورسز بعض اوقات بے گناہ لوگوں کو ان کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کرنے کے لیے تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔ یہ سیکیورٹی پالیسی فلسطینی عسکریت پسند تنظیموں کی مستقبل کی کارروائیوں اور صلاحیتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے مقصد سے اپنائی جاتی ہے۔ تفتیش کے دوران تشدد اور جسمانی اور ذہنی تشدد کی حدیں لامحدود اور غیر یقینی ہیں۔
خواتین کے خلاف تشدد
صیہونی حکومت کی جیلوں میں خواتین کے خلاف تشدد خوف ناک حد تک رائج ہے۔ حالیہ تبادلوں کے دوران متعدد خواتین نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ معمر ترین فلسطینی قیدی میسن الجبالی نے کہا کہ قیدیوں میں سے بہت سی خواتین سختی کے نتیجے میں بیمار ہوگئیں۔ جیل کے محافظوں کی طرف سے انہیں ہمیشہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رہائی پانے والے ایک اور قیدی اسراء جابیس نے بھی کہا کہ "اسرائیلی جیلوں میں بہت سے فلسطینی قیدی زخمی ہیں۔" اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی لڑکیوں کو ہر طرح کی اذیتوں اور ناقابل بیان مشکلات کا سامنا ہے اور مسلسل مارا پیٹا گیا۔
قید اور بچوں پر تشدد
بچوں کو گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنانا اس رجیم کی طرف سے قیدیوں کے خلاف کیے جانے والے اہم ترین اقدامات میں سے ایک ہے۔
عدالتی رپورٹ کے مطابق جیل حکام بچوں کو گھنٹوں سلاخوں میں باندھ کر ان پر تشدد کرتے ہیں اور کتے چھوڑتے ہیں۔
نہشون یونٹ سمیت جیل یونٹ کے عناصر جب انہیں عدالت لے جاتے ہیں تو انہیں ڈرانے کے لیے کوئی بھی جرم کرتے ہیں۔
اس رپورٹ میں ایک باب بچوں کے لیے اوفاک جیل کے لیے مختص کیا گیا ہے اور اس میں فلسطینی بچوں کی روزانہ کی تذلیل اور جبر کے علاوہ ان پر ہونے والے سخت اور ظالمانہ تشدد پر بھی زور دیا گیا ہے۔
صیہونیوں کی طرف سے فلسطینی عوام پر ہونے والے تشدد سے قطع نظر، اس سلسلے میں جو چیز تشویش کا باعث ہے وہ صیہونی حکومت کی طرف سے فلسطینی بچوں کے ساتھ بدسلوکی اور ان کی عصمت دری ہے۔
مثال کے طور پر صہیونیوں کے ہاتھوں پکڑے گئے ایک فلسطینی بچے محمد نضال نے نے اپنی رہائی کے بعد ایک انٹرویو میں کہا کہ "جیل کے اہلکاروں نے مجھے اس قدر مارا پیٹا کہ میرے کندھے، ہاتھ اور انگلیاں زخمی ہوئیں۔" اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسے طبی امداد ملی تھی، اس نے بتایا کہ: "انہوں نے کوئی مدد نہیں کی، اور ریڈ کراس فورسز نے ایک ہفتے کے بعد مجھے یہ پٹی باندھ دی۔" اس کے علاوہ حماس اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت تبادلے کیے گئے کئی فلسطینی نوعمر قیدیوں کے جسم کے مختلف حصوں میں گہرے زخم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں حکومتی جیل کے اہلکاروں نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔
نتیجہ
مذکورہ بالا اشاریوں کا مطالعہ کرنے سے حماس اور صیہونی حکومت کے دونوں طرف کے قیدیوں کے ساتھ برتاؤ میں فرق کو سمجھنا ممکن ہوجاتا ہے۔
لیکن، اہم بات یہ ہے کہ ان خبروں کی زیادہ سے زیادہ عکاسی کی جائے تاکہ مقبوضہ فلسطین کی قاتل رجیم اور عالمی برادری پر دباؤ ڈالا جاسکے۔
اس مہم کا عمومی نتیجہ غاصب رجیم کی نفسیاتی جنگ میں شکست، اس کے ظالمانہ منصوبے خی ناکامی اور عمومی طور پر ان کے خلاف اقدامی میڈیا وار ہے۔
اسی طرح رہائی پانے والے صہیونیوں کے انٹرویوز کی جامع میڈیا کوریج ہے جو مزاحمت کی اسلامی عقیدے کی بنیادوں کو واضح کرنے کا سبب بنے گی۔