مہر خبررساں ایجنسی- سیاسی ڈیسک؛ بیس سال سے لاکھوں فلسطینی غزہ کے زندان میں غاصب صہیونی حکومت کے ہاتھوں اسیر ہیں۔ ایسی حکومت نے جس نے اب تک کسی بھی بین الاقوامی قانون یا صلح کی قرارداد کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دی۔
غزہ کی جنگ دو ہفتوں سے نہیں بلکہ ستر سالوں سے جاری ہے جس میں فلسطینی عوام توسعہ طلب صہیونی حکومت کے ساتھ درگیر ہیں۔ آئے روز کی جھوٹی قراردادوں اور صلح کے معاہدوں سے تنگ آکر فلسطینی جوانوں نے حماس اور تحریک جہاد اسلامی تشکیل دی اور بار بار تجاوز کا شکار ہونے پر ایک مرتبہ مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔
نتن یاہو کی انتہاپسند حکومت غرب اردن میں جہاں حماس کی حکومت نہیں ہے، ہر روز قتل عام اور بیت المقدس کی صحن میں رقص کی محفلیں سجا کر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو ایسی حرکت پر ابھار رہی تھی تاکہ اس طرح کے بحران کی آڑ اپنی حکومت کو درپیش مشکلات پر پردہ ڈال سکے لیکن فلسطینیوں کی اس عظیم طاقت کا اندازہ بالکل نہیں لگایا تھا۔
حالیہ جنگ کے دوران غزہ کے المعمدانی ہسپتال پر وحشتناک حملہ کرکے سینکڑوں خواتین اور معصوم بچوں کا قتل عام کیا جو پناہ ڈھونڈنے آئے تھے۔ ان واقعات کے بعد نتن یاہو جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے ان وحشیانہ حملوں سے خود کو بری الذمہ قرار دے رہے ہیں جس طرح سرد جنگ کے دوران امریکی ادارے روسی فوج کو بدنام کرنے کے لئے بیس جرمن فوجیوں کو برلن کی گلیوں میں گرا کر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور ان فوجیوں میں سے ایک کے گھر والے اس اداس پریڈ کے درمیان اسے پہچان لیتے ہیں اور مسلح روسی فوجی سے التجا کرتے ہیں کہ اس کی بیوی اور بچوں کی خاطر جرمن فوجی کو معاف کر دے۔
روسی فوجی جانتا ہے کہ اسے پھانسی کے لیے ٹھیک بیس فوجیوں کے حوالے کرنا ہوں گے لہذا اس نے سپاہی کو اس کے گھر والوں کو دیتا ہے اور ایک جرمن شہری کو اس فوجی کی جگہ دوسرے فوجیوں کے ساتھ پھانسی کی جگہ پر چلا جاتا ہے۔
نتن یاہو وغیرہ کی مثال بھی ان امریکی اہلکاروں کی طرح ہے ہر دوسرے اور تیسرے روز کے اندر المعمدانی ہستپال کے شہدا کے برابر فلسطینیوں کو قتل کرتے ہیں اور سرد جنگ کے دور کی طرح فرضی کہانیاں بناتے ہیں کیونکہ ان کے اندر اس قتل عام کی ذمہ داری قبول کرنے کی اخلاقی جرائت نہیں ہے۔
مشرق وسطی کے عوام کے لئے صلح کے معاہدے پین کلر دوائیوں کی طرح ہیں جو کینسر کے مرض میں مبتلا مریض کے لئے ڈاکٹر تجویز کرتا ہے لیکن اس کو آخری وقت تک کینسر کی بیماری سے بے خبر رکھتا ہے۔ اسی طرح مشرق وسطی کے عوام کو بھی صلح کے معاہدوں کی صورت میں پین کلر دوائی جاتی ہے تاکہ اصل بیماری کے بارے میں باخبر ہوکر کینسر کے پھوڑے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی کوشش نہ کرسکیں۔
غزہ کے عوام شاید عہد جدید میں مکاشفہ یوحنا کی پیشنگوئی پر مشتمل جملوں کا شکار ہوگئے ہیں جس میں لکھا ہے کہ نظر کی تو ایک ہلکے رنگ کا گھوڑا تھا۔ اس سواری کا نام موت تھا اور مردے اس کے پیچھے جہنم کی طرف رواں دواں تھے۔
اس زمانے میں پوری دنیا کے لئے نتن یاہو موت کی سواری بنا ہوا ہے۔ جوبائیڈن اور میکرون سمیت نتن یاہو کے دیگر حامی کو اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ اگر بیس سال تک غزہ کے محاصرے نے وہاں کے لوگوں کو حماس اور جہاد اسلامی میں تبدیل کردیا ہے تو ہر روز سینکڑوں خواتین اور بچوں کا قتل عام اور فلسطینیوں کو دوبارہ ان کے وطن سے جلاوطن کرنے کا فیصلہ کیا گل کھلائے گا؟
کیا اس موت کی سواری اور اس کے حامی نہیں جانتے ہیں کہ فلسطینی عوام کا قتل عام صہیونی جنایت کاروں سے انتقام کی آگ کو مزید بڑھکا دے گا جو حضرت موسی کی طرح اچانک اور چپکے فرعون کے قصر میں گھس آسکتے ہیں۔