سینئر تجزیہ کار جواد منصوری نے مہر نیوز کے ساتھ گفتگو میں دشمنوں کی جانب سے اربعین کی مشی کے دوران مسلم ممالک اور قوموں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: عراقی عوام نے ایران کے ساتھ مل کر اربعین کے احیاء اور مشی کو وسعت دینے کے لیے بھرپور اور قابل تعریف کوششیں کی ہیں۔
درحقیقت ایران اور عراق کے عوام نے گذشتہ دہائی میں اربعین کی عالمگیر تحریک کو دنیا کی ثقافتی اور سیاسی فکری تحریک کے طور پر متعارف کرانے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم ہر سال دشمنوں بالخصوص غاصب صیہونی رجیم کی طرف سےاربعین کے خلاف، جھوٹ، افواہوں،الزامات، پروپیگنڈوں، دھمکیوں اور تفرقہ بازی کی شدید لہر کا مشاہدہ کرتے ہیں اور یہ سلسلہ ایران اور عراق کے خلاف تیزی سے جاری ہے، لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے عوام نے ایثار اور فداکاری کے ذریعے دشمنوں کو رسوا کیا ہے۔
منصوری نے اربعین مارچ میں دیگر مذاہب کے زائرین کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے اور اسی نکتے کی وجہ سے دنیا اربعین کے معاملے میں حساسیت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اور یہ پہلو دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔
سابق نائب وزیر خارجہ نے اربعین کے جلوس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے دشمنوں کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا: دشمن کی جاسوسی تنظیمیں اربعین کے جلوس میں اپنے کارندوں کو دو اہداف کے لیے بھیجتی ہیں۔
پہلا ہدف، تفرقہ پیدا کرنا اور افواہیں پھیلانا ہے اور دوسرا ہدف، اربعین کی میدانی تحقیق کے ذریعے بین الاقوامی سطح پر اس مشی کی صلاحیتوں اور اثرات کا جائزہ لینا ہے۔
اس حوالے سے ہمیں رپورٹس ملی تھیں کہ امریکی خفیہ ایجنسی (سی آئی اے) نے گزشتہ برسوں میں اس مشی سے متعلق تحقیق میں شرکت کے لیے عرب ممالک کے ماہرین کی ایک قابل ذکر تعداد کی خدمات حاصل کی تھیں تاکہ وہ اس مشی کے مستقبل کے سیاسی حالات پر اثرات کا جائزہ لیں۔
اربعین کی مشی ایک عوامی تحریک ہے
انہوں نے مزید کہا کہ اربعین کی مشی عوامی ہے اور اسے عوامی ہی رہنا چاہیے، اگرچہ حکومت نے انفراسٹرکچر کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی ہیں اور کر رہی ہے لیکن اس باوجود اربعین مشی کو عوامی ہی رہنا چاہئے۔
منصوری نے اربعین کی مشی کے اثرات کے حوالے سے مغربی ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ مغربی تھنک ٹینکس کہتے ہیں کہ اربعین کی اس تحریک کے نتیجے میں خطے کے حالات پر ہمارا کنٹرول ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔
اربعین کا ایک پہلو جس میں تمام قومیتیں شریک ہیں وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے لئے آمادگی اور تیاری ہے۔
اسلامی انقلاب کے دستاویزی مرکز کے سربراہ نے علاقائی اور عالمی مساوات پر اسلامی انقلاب کے اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی انقلاب بہت سی ثقافتی، سیاسی اور سماجی فکری مساوات کو بتدریج اس طرح بدل دے گا کہ کم و بیش اسٹریٹجک دنیا کے مطالعاتی مراکز تسلیم کر رہے ہیں کہ 1978ء (اسلامی انقلاب کی تحریک کا آغاز) در حقیقت انسانی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز تھا اور ہمیں اس کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اس دور کے اسلامی انقلاب کی تبدیلیوں نے اب آہستہ آہستہ دنیا کے تمام موجودہ فکری، سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور تزویراتی ڈھانچوں کو متاثر کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فطری طور پر، دشمنوں کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ خاموشی سے بیٹھیں اور ہمارے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں، یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کی فتح کے آغاز سے ہی وہ ہر طرح سے انقلاب کے خلاف بر سر پیکار ہیں اور وہ ایران اور شیعوں کو بالکل الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں، اسی ایجنڈے کے تحت وہ ایرانوفوبیا اور شیعہ فوبیا کو ہوا دیتے آرہے ہیں۔
جواد منصوری نے دنیا کے مختلف حصوں میں اسلامی جمہوریہ کے اثر و رسوخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: آج آپ دنیا میں جہاں کہیں بھی جائیں، کم و بیش اسلامی انقلاب کے ثقافتی اثرات کو دیکھ سکتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کے اقدار دنیا کے متکبر لوگوں اور شیطانی طاقتوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ دشمنوں کو ہم سے زیادہ اسلامی انقلاب کے اثرات نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر شیخ زکزاکی
نائجیریا میں شیعہ انقلاب کے محافظ کے طور پر ایک مزاحمت ہے جو اس سمت میں قدم اٹھا رہی ہے؛ اس بارے میں غاصب صیہونی حکومت کے ماہرین نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر نائیجیریا نے شیعہ مذہب اختیار کیا تو مغربی افریقہ زوال کا شکار (امریکہ اور اسرائیل کے تسلط کا خاتمہ) ہو جائے گا۔