مہر خبررساں ایجنسی، بین اقوامی ڈیسک: گذشتہ دس دنوں کے اندر لبنان میں اہم اور تشویش ناک واقعات پیش آئے ہیں۔ عین الحلوہ کیمپ میں تصادم اور عیسائی نشین محلے میں حزب اللہ کے رکن کی شہادت نے عالمی مبصرین کی توجہ اپنی جانب مرکوز کروائی ہے۔ لبنان میں گذشتہ ایک عرصے سے توانائی کا بحران، کرنسی کی قدر میں کمی اور صدر کے انتخاب میں مشکلات جیسے مسائل درپیش ہیں۔
فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں ابتدائی طور پر فتح تحریک اور الانصار گروپ کے درمیان تصادم ہوا تھا۔ واقعے کے فورا فلسطینی رہنما اسماعیل ہنیہ نے حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کو خط کے ذریعے صلح کی اپیل کی۔ عجیب اتفاق یہ تھا کہ خلیج فارس کے کنارے واقع عرب ممالک نے سعودی عرب کی پہل کے ساتھ اپنے شہریوں کو لبنان ترک کرنے کا حکم دیا۔ اس اقدام اس لئے حیرت ناک تھا کہ عین الحلوہ کے واقعات سے لبنان کے دیگر شہر اور علاقے متاثر نہیں ہوئے تھے اور وہاں امن کا ماحول تھا۔
لبنانی رہنماوں نے عرب ممالک کے اس اقدام پر تعجب کا اظہار کیا۔ بیروت میں سعودی عرب کے سفارت خانے نے رات گئے پرجوش بیان جاری کرتے ہوئے اپنے شہریوں کو لبنان سے خارج ہونے کا حکم جاری کیا۔ اس سے ان شبہات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ سعودی حکام لبنان میں اپنی پسند کا صدر منتخب کروانے میں ناکام ہونے کی وجہ سے غم و غصے کا شکار ہیں۔ البتہ بعض مبصرین کے مطابق سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کا یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ لبنان میں مستقبل قریب میں کوئی بڑا واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق کشیدگی اس وقت پھیل گئی جب فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی امور کے عہدیدار ماجد فرج ایک دن پہلے سفر کرچکے تھے۔ ماجد فرج رام اللہ میں صہیونی حکومت کا آلہ کار سمجھا جاتا ہے۔ لبنانی اور فلسطینی جماعتوں کے نمائندوں نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ عین الحلوہ کے واقعات میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے بارے میں تحقیق کرنا چاہئے۔ نامعلوم گاڑیوں کے ذریعے امداد پہنچانے کی خبریں ہیں اسی طرح بعض غیر ملکی میڈیا کے نمائندے فتنہ انگیزی میں شریک ہیں۔
دوسرا واقعہ حزب اللہ کے رکن کی شہادت کی صورت میں رونما ہوا۔ سمیر جعجع سے وابستہ گروہ القوات اللبنانی کے زیراثر علاقے میں جھڑپ ہوئی۔ واقعے کے فورا بعد حزب اللہ نے بیان جاری کرکے تفصیلات فراہم کردیں۔ جس میں بتایا گیا کہ حزب اللہ کا ایک ٹرک بیروت کی جانب حرکت کررہا تھا راستے میں الٹ گیا۔ ٹرک میں سوار افراد نے مدد طلب کی۔ اسی دوران علاقے میں موجود مسلح جنگجو آگئے۔ پہلے پتھر مارے اس کے بعد فائرنگ کی۔ اس دوران احمد علی فائرنگ کی وجہ سے زخمی ہوگئے جنہیں ہسپتال لے جایا گیا لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔
واقعے کے بعد لبنانی فوج پہنچ گئی اور حملہ آوروں کے ساتھ تصادم ہوا۔ فوج نے حملہ آوروں کو ٹرک کے نزدیک آنے سے روک دیا۔
اس واقعے کے بعد میڈیا میں پروپیگنڈا کیا گیا کہ ٹرک میں حزب اللہ کا اسلحہ تھا۔ صہیونی حکومت کی زیرقیادت میڈیا اس واقعے کے بعد حزب اللہ کے خلاف میدان جنگ گرم کررہے ہیں اور باور کرارہے ہیں کہ حزب اللہ کے اسلحے علاقے میں کشیدگی کا سبب ہیں۔ اس پروپیگنڈے کے بعد شہید کی تشییع جنازے کے دوران اور سوشل میڈیا پر مقاومت کے حق میں صدائیں بلند ہورہی ہیں۔
لبنان کے معروف مفتی احمد قبلان نے اپنے پیغام میں عیسائی رہنماوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بعض عناصر لبنان کے اندر مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تصادم کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ عناصر نہ مسلمانوں کے ہمدرد ہیں نہ عیسائیوں کے۔ ان کا مقصد صرف اور صرف لبنان میں آگ اور خون کا کھیل شروع کرنا ہے۔ انہوں نے حزب اللہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ شہید احمد علی عیسائی کلیساوں کے حامی تھے۔
ان واقعات کے تسلسل میں لبنانی وزیردفاع کی گاڑی پر حملہ کرکے ان کو قاتلانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔ موریس سلیم نے اپنی سلامتی سے باخبر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی گاڑی کے شیشے ٹوٹ گئے ہیں لیکن وہ خیریت سے ہیں۔ اس حملے کی کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
ان چند واقعات کے رونما ہونے کے بعد لبنان میں رفیق الحریری کے قتل کے دوران کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ ۸۰ اور ۲۰۰۰ کی دہائیوں کے دوران صہیونی عناصر نے لبنان میں سازش کے ذریعے فضا کو ناامن کردیا تھا۔ رفیق حریری کو جس علاقے میں قتل کیا گیا تھا اس علاقے میں حزب اللہ نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
صہیونی حکومت کو داخلی بحران درپیش ہے اس سے نجات پانے کے لئے لبنان کے اندر حزب اللہ اور دوسری مقاومتی تنظیموں کے درمیان کشیدگی پھیلائی جارہی ہے تاکہ حزب اللہ کی جانب سے لبنانی سرحدوں پر درپیش خطرات کو کم کیا جاسکے۔
لبنان کی سرحدوں پر شبعا کے علاقے میں حزب اللہ کے کیمپوں کی موجودگی کی وجہ سے صہیونی حکام کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ حزب اللہ نے ہمیشہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کی لیکن ساتھ ہی شبعا اور دیگر علاقوں کی آزادی کے لئے اقدام کرنے کا بھی اعلان کررکھا ہے۔
حزب اللہ اور مقاومتی تنظیموں کے ان اقدامات کی وجہ صہیونی حکومت کی آبادکاری کا منصوبہ رکا ہوا ہے۔ صہیونی حکومت حزب اللہ اور فلسطینی مقاومتی تنظیموں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنا چاہتی ہے۔ تل ابیب لبنان کے اندر مقاومتی تنظیموں کے درمیان تصام کی کیفیت پیدا کرنے کا خواہاں ہے۔
دو سال کے دوران میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا اور اقتصادی پابندیوں کے ذریعے لبنانی کرنسی کی قدر گراوٹ کا شکار رہی ہے۔ اقتصادی بحران کے دوران سیکورٹی اور امنیت کے حوالے سے بھی مشکلات پیدا کرکے حزب اللہ کو اسرائیلی سرحد سے لبنان کے اندر ہی مشغول رکھنے کی سازش ہورہی ہے۔
صہیونی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ حزب اللہ کو جدید اور پیشرفتہ اسلحہ کے حصول سے روکنے کا صرف یہی راستہ ہے کہ داخلی بحران ایجاد کرکے خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کی جائے۔