غاصب صیہونی حکومت کے سابق وزیر دفاع نے نیتن یاہو انتظامیہ اور امریکہ کے درمیان کشیدہ تعلقات کا اعتراف کیا۔ 

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین کے حوالے سے بتایا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کے سابق وزیر دفاع بینی گانٹز نے اعتراف کیا ہے کہ موجودہ حکومت کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی پالیسیوں سے تل ابیب اور واشنگٹن کے تعلقات کو اسٹریٹجک سطح کا دھچکا لگا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ جب ہزاروں صیہونی سڑکوں پر آتے ہیں تو نیتن یاہو انہیں سمجھنے کے بجائے الٹا مظاہرین کا مذاق اڑاتے ہیں اور وہ اس وقت صیہونیوں کو خانہ جنگی کی آگ میں دھکیل رہا ہے۔ انہوں نے نیتن یایو کابینہ میں عدالتی اصلاحات کے بل سے متعلق مذاکرات کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا۔

بدھ کو عبرانی میڈیا نے روزنامہ نیویارک ٹائمز کا حوالہ دیتے ہوئے بائیڈن کے قریبی ساتھی امریکی تجزیہ کار تھامس فریڈمین کے مضمون کے کچھ حصوں کی وضاحت کی جس میں نیتن یاہو کی کابینہ پر بہت سخت تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ کابینہ ذاتی اور پارٹی مفادات کی خاطر صیہونی حکومت کو خانہ جنگی کی طرف لے جانے کے لیے تیار ہے۔

فریڈمین نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے درحقیقت تل ابیب کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات پر نظرثانی شروع کر دی ہے، حالانکہ فی الحال فوجی اور سکیورٹی تعلقات کو مستحکم کرنے کا معاملہ اپنی خصوصی اہمیت کی وجہ سے ابھی بھی میز پر ہے۔

انہوں نے نیتن یاہو کی کابینہ کو ایک انتہاپسند کابینہ قرار دیا جس میں  شدت پسند لوگ موجود ہیں جو اپنے نظریے کو عملی جامہ پہنانے اور نیتن یاہو کابینہ کی طرف سے اتحادی معاہدوں کے فریم ورک میں دیے گئے اختیارات کے مطابق مغربی کنارے میں ناجائز بستیوں کی تعمیر کے خواہاں ہیں جب کہ امریکی نقطہ نظر اس کے بالکل برعکس ہے۔

یاد رہے کہ جو بائیڈن نے حال ہی میں، ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران، نیتن یاہو کی کابینہ کے وزراء بشمول ایتمار بن گوئر اور اسموٹریچ (داخلی سکیورٹی اور مالیات کے دونوں وزیر)  کے نام لیے بغیر کہا تھا کہ مغربی کنارے کی نازک اور کشیدہ صورت حال کے ذمہ دار نیتن یاہو کے بعض وزراء  ہیں۔