مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غدیر مسلمانوں کی اہم ترین عید ہے۔ متعدد تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس دن اپنے پیروکاروں کے لئے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنا جانشین بنایا اور اللہ کے حکم کے مطابق ان کو وصی، بھائی اور جانشین نام رکھا۔
پیغمبر اسلام کی نبوت 613 عیسوی میں شروع ہوئی۔ آپ نے بت پرستوں کو یکتاپرستی کی دعوت دی اور لوگوں کو جھوٹ، خیانت، ظلم اور قتل جیسے جرائم سے منع کیا اور اچھی اور نیک عادات اپنانے کی دعوت دی۔
اللہ کے آخری پیغمبر نے معاشرے کو سچائی، جوانمردی، محتاجوں کی مدد اور کمزوروں سے محبت کی طرف ہدایت کی۔ جس دور میں انسانی حقوق کا نام و نشان نہیں تھا، آپ نے نسل پرستی کا مقابلہ کیا اور رنگ اور قوم کی بنیاد پر پائی جانے والی ناہمواری کو گناہ قرار دیا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبرئیل امین کے ذریعے اللہ کا پیغام دریافت کرتے تھے۔ آپ نے محبت، انسان دوستی اور رستگاری پر مبنی دین کی ترویج کی۔ آپ نے 23 سال زحمت کے بعد اللہ کے حکم سے مسلمانوں کا زمام اقتدار اپنے قدیمی دوست اور مددگار حضرت علی علیہ السلام کے سپرد کیا اور ان کو اپنا جانشین اور وصی بنایا۔
حضرت علی علیہ السلام بہادر اور بے باک جوان تھے جنہوں نے ہدایت الہی کے دفاع اور تقویت کے لئے پیغمبر اسلام کے شانہ بشانہ سخت مصیبتیں جھیلی تھیں۔ انہوں نے جنگ احد میں جوکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سخت ترین جنگوں میں سے ایک ہے، 90 زخم برداشت کئے تھے۔
پیغمبر اسلام کا یہ جانشین اچھے اخلاق اور نیک رفتار میں دوسروں پر سبقت رکھتا تھا۔ یتیموں کے ساتھ شفقت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ سب آپ کو بچوں کے ساتھ مہربانی کے حوالے سے پہنچانتے تھے۔ قضاوت میں آپ کی عدالت کے دوست اور دشمن سب معترف ہیں۔ جس مسئلے کا کوئی حل نہ ہو اس میں لوگ آخر میں اپ ہی کی طرف رجوع کرتے تھے تاکہ دوسروں سے حل نہ ہونے والا مسئلہ آپ حل کریں۔ آپ ہر حال میں عدالت سے کام لیتے تھے اگرچہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے خلاف کیوں نہ ہو۔
ہجرت کی 23 سال جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے آخری حج سے واپس آرہے تھے تو ذی الحجہ کی 18 ویں تاریخ کو مکہ اور مدینہ کے درمیان غدیر نامی جگہ اپنے کاروان کو روکا تاکہ اللہ کی طرف سے معین پیشوا اور رہبر کا تعارف کرائیں۔ جو بھی اب تک پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کرتا تھا اس کے لئے ضروری تھا کہ آج کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی سیاسی، دینی اور اجتماعی حاکمیت کو قبول کرے۔
اللہ کے رسول نے اس دن تین مرتبہ تکرار کیا: جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے۔ اس طرح آپ نے کسی کے لئے شک و شبہے کی گنجائش نہیں رکھی یہاں تک کہ اجتماع میں حاضر لوگوں کو حکم دیا کہ دوسروں تک یہ حکم پہنچادیں اور اس اہم خبر کو منتشر کریں۔
جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے
رسول خدا کی حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے مقام پر مکرر تاکید کی بناپر شیعہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاندان سے خصوصی محبت کرتے ہیں۔ شیعوں کے لئے یہ دن ایک عید ہے جس میں ان کے لئے پیغمبر اسلام کا جانشین متعارف ہوا اور قرآن کریم کے مطابق دین کامل ہوا۔ یہ دن ایک مبارک اور بابرکت دن ہے۔ شیعہ ابتدا سے ہی اس دن جشن مناتے ہیں اور ایک دوسرے کو ہدیہ دیتے ہوئے تبریک پیش کرتے ہیں۔ شادیوں کی تقریبات بھی اسی بابرکت دن میں رکھتے ہیں۔
گذشتہ چند دہائیوں سے متعدد مسلمان ممالک میں ماہ مبارک رمضان کی طرح ان عیدوں کو بھی خاص اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ایران میں بھی دوسرے ممالک کی طرح گذشتہ ایک مدت سے اسلامی عیدوں کے موقع پر جشن مناتے ہیں۔ عوام اور حکومت دونوں کی طرف سے جشن کی ان تقریبات کو جوش و خروش سے منایا جارہا ہے۔ تہران، مشہد، تبریز اور دیگر شہروں میں جشن اور ریلیاں نکالتے ہیں جس میں لوگ دس کلومیٹر طویل راستے پر پیدل مارچ کرتے ہیں۔ ان شہروں کے علاوہ 200 کے قریب چھوٹے بڑے شہروں میں بھی جشن کی ریلیاں منعقد ہوں گی۔
سب سے بڑی ریلی دارالحکومت تہران میں ہوگی جس میں امام حسینؑ اسکوائر سے آزادی اسکوائر تک دس کلومیٹر لمبا دسترخوان بچھایا جائے گا۔ اسی شاہراہ کے ذریعے تہران کے مشرقی حصے کو مغربی حصے سے ملایا جاتا ہے۔
اگرچہ میٹروپولیٹن سٹی کی یہ شاہراہ شہر کی مصروف ترین گزرگاہ ہے لیکن متبادل راستوں کا اہتمام ہونے کی وجہ سے شہریوں کو ٹریفک مشکلات کا سامنا نہیں ہوگا۔
زندگی کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والوں کے لئے مختلف نوعیت کے تفریحی پروگراموں کی وجہ سے شرکاء کے لئے فرحت بخش تفریح میسر آئے گی۔ اب تک ہونے والے سروے کے مطابق تہران کے 40 فیصد شہری جشن میں شرکت کریں گے اس طرح جمعرات کی رات کو تہران کی شاہراہوں پر انسانوں کا سمندر ہوگا۔
امام حسین اسکوائر سے آزادی اسکوائر تک دس کلومیٹر لمبا دسترخوان بچھایا جائے گا
جشن کے تقریبات کے دوران پورے راستے میں بچوں کے لئے کھیل کود کا سامان فراہم ہوگا۔ خصوصی بسوں میں تفریحی سامان مہیا ہوں گے اس طرح بچے زندگی میں پہلی بار طویل ترین پلے لینڈ دیکھ سکیں گے۔ یہ ایرانی عوام کے لئے ایک یہ یادگار ترین دن ہوگا۔
راستے میں کھیل کود کے اسباب و سامان کے علاوہ ڈرائنگ اور گروپ گیمز کی بھی سہولت فراہم کی جائے گی۔ 200 ترنہ پڑھنے والے گروہ مختلف مقامات پر ترانوں سے شرکاء کو تفریح فراہم کریں گے۔ راستے میں مذہبی اور خاندانی مشاورے کے لئے ماہرین اپنی خدمات پیش کریں گے تاکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں مشکلات کا شکار افراد ان سے مشورے لے سکیں۔
ریلی کے دوران غدیر اور حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے موضوع پر دس لاکھ کتابیں تقسیم کی جائیں گی۔ ایران میں اجتماعی تقریبات کے موقع پر خیراتی پروگرام بھی منعقد کئے جاتے ہیں اسی لئے ریلی کے دوران دو کلومیٹر طویل دسترخوان کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ کم آمدنی والے طبقات اور مستحق خاندانوں کے بچوں کو کھیل کود کے اسباب بھی دیئے جائیں گے اور اس مبارک دن کے موقع پر نیازمندوں کی مدد کی جائے گی۔
مجموعی طور پر دارالحکومت کے دو مرکزی چوراہوں کے درمیان تقریبا 1300 کیمپ لگائے جائیں گے۔ 200 خیموں میں شرکاء کا ٹھنڈے مشروبات سے تواضع کیا جائے گا۔ اس حوالے سے 50 ہزار رضاکار اپنی خدمات فراہم کریں گے۔
چھوٹے اور بڑے پیمانے پر ہونے والے اس پروگرام میں زندگی کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لئے جاذب اور پروگرام ہوں گے جو ایرانیوں کے لئے ایک دینی اور ثقافتی تہوار کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
یہ جشن ایک اجتماعی حرکت کے لئے فرصت بن سکتا ہے۔ معاشرے میں بسنے والے مختلف نظریات رکھنے کے باوجود ایک مشترک نکتے پر اتفاق پیدا کرسکتے ہیں اور اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے مزید نزدیک ہوکرزندگی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
اس طرح کی تقریبات کو تسلسل سے انعقاد معاشرے کے مختلف طبقات فکر کے درمیان محبت اور رواداری ایجاد کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ مشترکہ نکات پر تمرکز کرنے سے اندرونی اتحاد تشکیل پاسکتا ہے اور زمانے کے ساتھ ساتھ یہ اتحاد مزید مستحکم ہوسکتا ہے۔