مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، معروف عرب تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے روزنامہ رائ الیوم میں میں لکھا ہے کہ صہیونی افواج صرف ذلت پذیر عرب فوج کے مقابلے میں ناقابل شکست ہیں۔ گذشتہ دنوں جنین میں فلسطینی مقاومت کے ہاتھوں اسرائیلی افواج کا شکست کا ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ ہر طرف سے محاصرہ اور پابندیوں کے باوجود جنین کیمپ نے صہیونی فورسز پر اپنی برتری ثابت کی ہے۔ دوسری طرف صہیونی فوجی حکام ہمیشہ سے اس بات پر اصرار کرتے آرہے ہیں کہ ان کی افواج دنیا کی جدیدترین ہتھیاروں سے لیس اور تجربہ کار اہلکاروں پر مشتمل ہیں۔
عطوان نے مزید لکھا ہے کہ جنین کیمپ کے جوان ہر روز معجزاتی کاموں کے ذریعے ہم سب کو حیرت میں ڈال رہے ہیں ان کی طاقت میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ صہیونی دشمن ان کی توانائی کو دیکھ کر تعجب میں ہیں کہ چاروں اطراف سے پابندیوں اور محاصرے میں ہونے کے باوجود ان کی ترقی کا راز کیا ہے؟
منگل کو صہیونی فورسز دو فلسطینی جوانوں کو گرفتار کے لئے جنین میں داخل ہوگئیں تو فلسطینی جوانوں کی جال میں گرفتار ہوگئیں اور 40 کلو وزنی بم پھٹنے سے کئی فوجی زخمی ہوگئے۔ صہیونی حکام نے اب تک سات فوجیوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے جب کہ اصل تعداد اس کے بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔
صہیونی فوج گذشتہ 23 سالوں سے اپنے زخمی اور ہلاک ہونے والے اہلکاروں کو نکالنے کے لئے امریکی اپاچی ہیلی کاپٹر استعمال کرتی رہی ہیں۔ اس نوعیت کا جدید ہیلی کاپٹر صرف دوسرے ملکوں کے ساتھ جنگ میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج فلسطینی مقاومت کے حملوں کے نتیجے خوف و ہراساں کا شکار ہے۔
زخمیوں کو بچانے کے لئے آنے والے ہیلی کاپٹروں نے مقاومت کے مشکوک ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ فلسطینی جوانوں کے پاس میزائل موجود ہیں جن سے ہیلی کاپٹروں کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
مقاومتی تنظیموں نے انتہائی دقیق اطلاعات کی روشنی میں صہیونی فورسز کے لیے جال بچھائی تھی اسی لئے بہت ہی باریک بینی کے ساتھ صہیونی گاڑیوں کو بم سے اڑایا گیا۔ صہیونی حکام مقاومت کی اس باریک بینی اور کامیاب کاروائی سے خوف زدہ ہیں۔
ماضی کے واقعات اور جنین کی جنگ کا موازنہ کرنے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ حالات بہت بدل گئے۔ آج کے بعد فلسطینیوں کے کیمپوں میں داخل ہونا آسان لیکن حفاظت سے نکلنا بہت مشکل ہوگا۔
جنین پر حملہ کرکے صہیونی افواج گذشنہ مہینوں کی شکست کا بدلہ لینا چاہتی تھی لیکن معاملے کا نتیجہ برعکس نکلا اور ہزیمت آمیز ناکامی سے صہیونی فوجی حکام بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔
جنین میں استعمال ہونے والے سمارٹ بم نے صہیونی فوج کے جنرلوں کو بہت پریشان کردیا ہے۔ اس حملے کے بعد کئی سوالات زیرگردش ہیں کہ یہ بم دیسی ساختہ ہے یا بیرون ملک سے درامد کیا گیا ہے۔
اس سوال نے صہیونی دفاعی عہدیداروں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کردیا ہے۔
جنین کے حملے میں صہیونی فوج کی سات گاڑیوں کو نقصان پہنچا جن میں سے بعض مکمل تباہ ہوگئیں لہذا صہیونی فوجی حکام اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کیا شام میں تیار ہونے والے روسی میزائل کسی راستے سے فلسطین منتقل کئے گئے ہیں؟
عبرانی ذرائع ابلاغ اور سابق صہیونی فوجی حکام کا ماننا ہے کہ جنین کی جنگ نے حزب اللہ کے ساتھ جنوبی لبنان میں ہونے والی جنگ یاد تازہ کردی ہے۔ اس سے یہ امکان بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ نے اپنا تجربہ مغربی کنارے میں سرگرم مقاومتی جوانوں تک منتقل کیا ہے۔
عبدالباری عطوان نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ اسرائیلی بکتربند گاڑیاں اور سینکڑوں اہلکار جنین کیمپ میں معدود فلسطینی جوانوں کو شکست دینے میں ناکام رہے تو مختلف رینج کے 2000 سے زائد میزائل سے لیس حزب اللہ کے مقابلے میں کیسے مقاومت کرسکے گی؟ اگر لاکھوں جنگجوؤں پر مشتمل حزب اللہ اسرائیل پر حملہ کرے تو کیا منظر ہوگا؟ ابھی ایران کی بات ہی نہیں آئی ہے۔
سمارٹ بم صہیونی فوج کے لئے حیرت انگیز اور خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ممکن مستقبل قریب میں میزائل ٹیکنالوجی بھی مغربی کنارے میں پہنچ جائے جن کی رینج تل ابیب اور بیت المقدس تک ہو۔ 2000 میں شروع ہونے والا فلسطینی انتفاضہ پانچ سال تک جاری رہا لیکن اس وقت سمارٹ بم اور درست نشانہ بنانے والے میزائل نہیں تھے۔ اگر آج کا انتفاضہ جاری رہے تو عرب ممالک اور دوسری قوتوں کے کنٹرول سے باہر ہوگا۔ صہیونی فورسز کو جنوبی لبنان ہونے والے تجربات انتہائی تلخ تھے جس کی وجہ سے اسرائیل کو ذلت آمیز حالت میں عقب نشینی کرنا پڑا تھا۔ فلسطینی مقاومتی تنظیمیں بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔