غاصب اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ میں عدالتی اصلاحات کا بل پیش کرنے کا مقصد کابینہ اور مقننہ کے مقابلے میں عدلیہ کے اختیارات کو محدود کرنا ہے۔ یہ اقدام غاصب ریاست میں طاقت کے توازن میں تبدیلی اور دائیں بازو کے انتہا پسند مذہبی طبقوں کی قدرت میں اضافے کی علامت ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: کسی بھی جگہ قومی حکومت تشکیل دینے کے لئے ثقافتی، مذہبی، قومی، تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے اکائیوں کا متحد ہونا لازمی ہے۔ ان امور کے بغیر اجتماعی حکومت کی تشکیل بے معنی ہے۔ بنابراین مقبوضہ فلسطین میں قائم غاصب صہیونی حکومت کو سخت چیلنجز درپیش ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں سے مہاجرین کو لاکر غاصب صہیونی حکومت تشکیل دی گئی۔ یہ مہاجرین فلسطینی علاقوں میں آباد ہونے کے بعد اپنی آبائی شناخت سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ روس سے آنے والے یہودی عبرانی زبان کے ساتھ آبائی زبان استعمال کرتے ہیں۔ علاوہ ازین غاصب اسرائیل کے جعلی معاشرے میں عرب۔ یہودی، سیکولر۔ مذہبی اور دائیں بازو۔ بائیں بازو جیسا طبقاتی نظام موجود ہے جس سے ایک قوم اور حکومت کی تشکیل کا کام مزید مشکل ہوجاتا ہے۔

فلسطینی مقاومتی تنظیموں کے ساتھ جھڑپوں اور مقبوضہ علاقوں میں آباد سیکولر غاصب صہیونیوں کی کثیر تعداد میں اپنے آبائی علاقوں کی طرف ہجرت نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اس تحریر میں غاصب صہیونی ریاست میں تسلسل کے ساتھ جاری مظاہروں کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

مصنوعی حکومت و ملت

اگرچہ صہیونی حکومت سے وابستہ علمی شخصیات میڈیا اور علمی مراکز میں اسرائیلی شہریوں کو یہودی قوم قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں جب کہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں آباد ہونے والے صہیونی امریکہ اور دنیا کے دوسرے خطوں سے تعلق رکھتے ہیں جو ثقافتی اور نظریاتی لحاظ سے آپس میں گہرے اختلافات رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے بعض گروہ دوسروں سے زیادہ منفعت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ایشیا اور امریکہ سے آنے والے صہیونیوں کے نماز پڑھنے کا طریقہ، شادی کی رسومات اور دیگر امور ایک دوسرے سے مکمل مختلف ہیں۔ آج اسرائیل میں آباد اشکنازی طبقے کے لوگ سفاردی طبقے والوں سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ حالیہ احتجاج میں شریک مظاہرین کا ایک مطالبہ دونوں طبقوں کے لئے الگ الگ مراکز کا قیام بھی ہے۔ ان اختلافات کی موجودگی میں صہیونی حکام کی جانب سے اسرائیل میں متحد قوم اور حکومت کی تشکیل کی آزرو دیوانے کا خواب ہی ہے۔

عرب اور یہودی شگاف

مقبوضہ علاقوں میں موجود شگافوں میں سے ایک عربوں اور یہودیوں کے درمیان تاریخی شگاف ہے۔ عرب نسل سے تعلق رکھنے والے جعلی ریاست کے قیام کے ابتدائی سالوں میں ہی غاصب اسرائیل کے پرچم تلے رہنے اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہوئے لیکن ان کو اب تک دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت دی گئی ہے۔ صہیونی ریاست کی کل آبادی کا فیس فیصد فلسطینی نژاد عربوں پر مشتمل ہے۔ اس کے باوجود حکومتی ایوانوں میں ان کا داخلہ ممنوع ہے۔ عرب نژاد اسرائیلی زراعت اور ابتدائی تعلیم جیسے بنیادی اور کم درجے کے شعبوں میں ہی فعالیت انجام دے سکتے ہیں۔ اگرچہ "رعم" اور "بلد" جیسی جماعتیں سیاست میں مصروف عمل ہیں لیکن اتنی طاقت سے ان کو محروم رکھا گیا ہے کہ عربوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھا سکیں۔

دائیں بازو کے مذہبی انتہاپسندوں کا اقتدار مضبوط ہونے سے عرب نسل اور یہود طبقوں کے درمیان شگاف مزید گہرا ہوگیا ہے۔ اتحادی حکومت میں شامل بعض صہیونی انتہاپسند جماعتیں عرب مخالف جذبات رکھتی ہیں اور عرب اقلیت کو دیوار سے لگانا چاہتی ہیں۔ سیاسی جماعت "قدرت یہودی" کے سربراہ ایتمار بن گویر نے صہیونی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عرب نژاد شہریوں کو ہجرت پر مجبور کرے تاکہ آبادی کا توازن یہودیوں کے حق میں رہے۔ علاوہ ازاین کابینہ میں شامل دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ارکان کی سخت گیر پالیسیاں مثلا فسلطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری میں اضافہ، فلسطینی زمینوں پر قبضہ اور مغربی کنارے کا مکمل الحاق جیسے منصوبے تیسرے انتفاضہ کو جنم دے سکتے ہیں جس میں مغربی کنارے اور غزہ کے شہریوں کے علاوہ 1948 اور 1967 کے متاثرین بھی میدان میں آسکتے ہیں۔

سیکولر اور مذہبی شگاف

فسلطین کی سرزمین پر ابتدا میں آباد ہونے والے یہودی مہاجرین مغربی ممالک کے سیکولر شہری تھے جو بنیادی طور پر مذہبی نظریے کے بجائے قومی جذبات رکھتے تھے۔ بنابراین اسرائیل کے ابتدائی قوانین مغربی معیار اور بائیں بازو کے نظریات کے مطابق وضع کئے گئے تھے۔ بن گوریان مذہبی اور دائیں بازو کے عناصر کو سیاسی نظام سے دور رکھنے اور فوج کو اس میں شامل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔

وزیراعظم اور لیکوڈ پارٹی کے سربراہ بنیامین نتن یاہو طاقت کا توازن بدل کر ان عناصر کو سیاسی اور اقتصادی معاملات میں زیادہ حصہ دینا چاہتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور کابینہ کے مقابلے میں عدلیہ کے اختیارات میں کمی کا بل پیش کرنا دلیل ہے کہ صہیونی ریاست میں طاقت کا توازن دائیں بازو اور مذہبی انتہاپسند عناصر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ نتن یاہو کے اس اقدام کے ردعمل میں بائیں بازو کے اپوزیشن رہنما یایر لاپیڈ نے مذکورہ بل کو اصلاح کے بجائے اسرائیل میں جمہوری روایات کے خلاف کودیتا قرار دیا ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی ہے کہ سڑکوں پر احتجاج اور قبضہ کرکے حکومت اور وزیر انصاف کو مذکورہ بل پاس کرنے سے روکیں۔

 کئی ہفتوں سے جاری احتجاج میں 700 لاکھ غاصب صہیونی سڑکوں پر نکل آئے اور عدالتی اصلاحات کے منصوبے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا۔ مخالفین کے جواب میں نتن یاہو کے اتحادیوں نے اپنے حامیوں سے حکومتی منصوبے کی حمایت میں ریلی نکالنے کی درخواست کی ہے۔ دونوں گروہوں کے درمیان صف آرائی سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اقتدار کی جنگ کا دائرہ حکومتی ایوانوں سے نکل کر سڑکوں اور شاہراہوں تک پھیل گیا ہے۔

غاصب صہیونی ریاست میں جاری بحران اور مظاہروں کے متعدد عوامل ہیں۔ متفقہ آئین کا نہ ہونا ریاست کی بنیادوں میں پڑنے والی شگاف کی بنیادی وجہ ہے۔ اگرچہ ریاست کے نظام میں کچھ قوانین موجود ہیں لیکن ان کا دائرہ اس قدر کلی اور وسیع ہیں کہ حکومت اپنی مرضی سے ان کی تشریح کرکے سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرسکتی ہے۔ نتن یاہو کے مخالفین کی بنیادی دلیل یہی ہے کہ اس بل کو منظور کرنے کے بعد آئین کی تشریح اور اس کا دفاع کرنے میں عدلیہ کا کردار ختم ہوجائے گا۔

غاصب صہیونی معاشرہ داخلی عدم استحکام کا شکار ہونے کے بعد غاصب حکومت کو سخت چلینجز درپیش ہیں۔ سخت گیر وزیر اعظم نتن یاہو کو بحرانی صورتحال سے نکلنے کے لئے سخت پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ مقبوضہ علاقوں میں امن و امان بحال کرنے کے لئے نتن یاہو کے پاس بیرونی کھلاڑیوں کے تعاون سے بحران کا نیا کھیل شروع کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ حالیہ واقعات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مستقبل قریب میں غزہ یا لبنان کے مقاومتی بلاک کے ساتھ غاصب صہیونی فوج کی جنگ ہوسکتی ہے تاکہ انتہاپسند حکومت پروپیگنڈے کی مشینری کو دوبارہ فعال کرے اور بیرونی دشمن سے مقابلے کے بہانے سڑکوں پر متصادم گروہوں کو منتشر کرے۔