رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ کے واضح اور دو ٹوک مؤقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کو کسی سے کوئی خوف نہیں ہے اور وہ فلسطینی قوم کی کھل کر حمایت جاری رکھنے کے ساتھ، ہر ممکن مدد جاری رکھے گا۔

مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبرِ انقلاب اسلامی سے بعثت رسول خاتم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سے ایرانی اعلی عہدیداران، اسلامی ملکوں کے سفیروں اور قرآن کے عالمی مقابلوں کے شرکاء نے ہفتے کی صبح ملاقات کی ہے۔

رہبرِ انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ایرانی عوام، امت مسلمہ اور پوری دنیا کے حق پرستوں کو بعثتِ رسول خاتم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارکباد پیش کی۔

رہبر انقلاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کو، انسانیت کیلئے اللہ کا سب سے بڑا اور سب سے قیمتی تحفہ اور نعمت الہی قرار دیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے خزانوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ توحید اور غیر خدا کی بندگی سے رہائي، بعثت کا سب سے عظیم ہدف ہے کیونکہ پوری تاریخ میں جو بھی جنگ، جرائم اور عزائم ہوئے ہیں، ان کا سبب خدا کی عدم اطاعت ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بعثتِ رسول کے عظیم اور نہ ختم ہونے والے خزانوں سے استفادہ کو، امت مسلمہ کی تمام مشکلات کا علاج اور دنیا و آخرت میں اس کی کامرانی کا ذریعہ قرار دیا۔

رہبر انقلابِ اسلامی نے بعثت کے خزانوں کی تشریح کیلئے قرآن مجید کی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے مزاحمت و مقاومت کو تمام مقاصد کے حصول کی راہ قرار دیا اور فرمایا کہ عدل و انصاف کا قیام بھی اللہ تعالیٰ کے بے مثال تحفوں میں سے ہے جو بعثتِ رسول کی نعمت کے سائے میں انسان کو عطا ہوا ہے۔

آیت الله سید علی خامنہ ای نے معاشرے کے افراد کے درمیان پیار و محبت اور خلوص کو بعثتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک اور گرانقدر تحفہ قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ دنیا کے سرکشوں سے اجتناب اور دوری اور جہل، تعصب اور جمود کی تاریکیوں اور زنجیروں سے رہائي، اسلام اور بعثت کے عظیم خزانوں میں سے ایک ہے۔

رہبرِ انقلاب نے فرمایا کہ بعثت کے خزانوں کی عدم معرفت، اس سلسلے میں کفران نعمت کرنا اور عمل کے بجائے صرف زبانی فخر و مباہات، اس عظیم نعمت کے تعلق سے انسانی معاشروں کا غلط رویہ رہا ہے اور تفرقہ، پسماندگی اور دوسری متعدد علمی و عملی کمزوریاں، بعثت کے سلسلے میں اس روئے کا نتیجہ ہیں۔

سپریم لیڈر نے تیسری اور چوتھی صدی میں انسانی معاشرے کے سب سے بڑے تمدن کی تشکیل کو قرآن مجید کی تعلیمات پر کسی حد تک عمل کا نتیجہ بتایا اور فرمایا کہ آج بھی اگر بعثت اور قرآن کی بے نظیر تعلیمات سے استفادہ کیا جائے تو عالم اسلام کی کمزوریاں ختم اور اس کی سعادت و پیشرفت کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے مسئلۂ فلسطین کو امت اسلامیہ کی اہم کمزوریوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک ملک اور ایک قوم، عالم اسلام کی نظروں کے سامنے ایک وحشی اور شر پسند حکومت کے بے انتہا اور روزانہ کے مظالم کا نشانہ بن رہی ہے اور اسلامی حکومتیں اتنی دولت و ثروت، صلاحیت اور توانائی کے باوجود صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں بلکہ بعض اسلامی حکومتیں تو خاص طور پر حالیہ کچھ برسوں کے دوران اس خونخوار حکومت سے تعاون بھی کر رہی ہیں۔

حضرت آیت الله سید علی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ ان ممالک کی کمزوری، صہیونیوں سے تعاون اور ان کے جرائم پر خاموشی کا نتیجہ ہے اور آج صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ امریکہ، فرانس اور بعض دوسرے ممالک، مسلمانوں کے مسائل کے حل کے دعوے کے ساتھ، عالم اسلام میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں، جبکہ وہ اپنے ہی ملکوں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دے کر فرمایا کہ اگر پہلے ہی دن اسلامی ملکوں نے نجف کے بزرگ علماء سمیت خیر خواہوں کی بات مانی ہوتی اور غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا ہوتا تو آج یقیناً مغربی ایشیاء کی صورتحال الگ ہوتی اور امت مسلمہ کے مابین اتحاد اور امت مختلف پہلوؤ‎ں سے زیادہ طاقتور ہوتی۔

رہبرِ معظم نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ کے واضح اور دو ٹوک مؤقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کو کسی سے کوئی خوف نہیں ہے اور وہ فلسطینی قوم کی کھل کر حمایت جاری رکھنے کے ساتھ، ہر ممکن مدد جاری رکھے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے فلسطین کی حمایت کے سبب دشمنوں کی طرف سے ایران دشمنی پر توجہ مرکوز کئے جانے کا بھی ذکر کیا اور فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ جن حکومتوں کی ذمہ داری، فلسطینی قوم کی مدد کرنا تھی وہ بھی ایران دشمنی کو فروغ دے کر اسلام کے دشمنوں کی آواز سے آواز ملا رہی ہیں۔

حضرت آیت الله خامنہ ای نے مسلم اقوام کے بعثت کی تعلیمات، اتحاد اور ہمدلی کی جانب واپس لوٹنے اور مسلم حکومتوں کی جانب سے دکھاوے نہیں بلکہ حقیقی تعاون کو، امت مسلمہ کی تمام مشکلات کا حل قرار دیا۔

آخر میں آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے، ایک بار پھر ترکیہ اور شام میں آنے والے حالیہ تباہ کن زلزلے پر دلی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اقوام عالم کو مسئلۂ فلسطین اور امریکہ کی مداخلت جیسے سیاسی اہم مسائل کی اہمیت پر ہر حالت میں توجہ دینی چاہیئے اور امت مسلمہ کو اس پر نظر رکھنی چاہیئے۔

واضح رہے کہ ملاقات کے آغاز میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئيسی نے خطاب میں، بعثتِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا فلسفہ، قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر انسانوں اور انسانی معاشرے کی تعمیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ انقلابِ اسلامی کے بعد دشمنوں نے، اسلام کے ابتدائی دور کی طرح ہماری قوم کے سامنے فوجی، اقتصادی، سیاسی اور نظامی جنگ کے ذریعے صف آرائی کی، لیکن ایرانی عوام نے اپنی بے مثال مزاحمت و مقاومت سے سامراجیوں کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دیا۔

لیبلز