تہران کی نماز جمعہ کے خطیب نے الہی مقدسات کے خلاف مغربی دنیا کی کھلی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ قرآن کو جلاتے ہیں اور ہمارے مقدسات کی توہین کرتے ہیں، پتہ چلتا ہے کہ عالم کفر اسلام سے خوفزدہ ہے۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے دارالحکومت تہران میں اس ہفتے کی نماز جمعہ کی امامت کے فرائض امام جمعہ آیت اللہ کاظم صدیقی نے انجام دیئے۔ انہوں نے اپنے خطبے کی ابتدا میں تقوی اور پرہیزگاری کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور مسلمانوں کو نصیحت کی کہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنتی ہیں ان سے پرہیز کیا جائے۔

انہوں نے معاشرے میں امید زندہ کرنے کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ خدا کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو نعمتوں میں خیانت کرے، اس کی نافرمانی کرے، خدا کی محبت اور نعمتوں کو نہ دیکھے اور کم ترین تکلیف اور مشکلات پر ناراضگی کے لئے منہ کھولے۔ لیکن جو بھی دینی اخلاق اور امید افزا سلوک رکھتا ہے اور امید زندہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا لطف اور محبت اس کے شامل ہوتی ہے۔

تہران کے عبوری امام جمعہ نے کہا کہ الہی مقدسات کے خلاف مغربی دنیا کی کھلی جنگ ایک اور اہم مسئلہ ہے جس کا ذکر ہونا لازمی ہے ۔ وہ خدا کے ساتھ جنگ کو نکلے ہوئے ہیں، قرآن کو نذر آتش کرتے ہیں اور ہمارے مقدسات کی توہین کرتے ہیں، اپنے کارٹونوں اور زہر آلود قلموں سے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ کے چہرے کو مسمار کرتے ہیں۔

آیت اللہ کاظم صدیقی نے کہا کہ حال ہی میں انہوں نے زمانہ غیبت میں انسانیت کے پیش کی جانے کے لائق بہترین شخصیت جو مجتہد، سیاست دان، ذہین، پرکشش اور عالم اسلام میں بااثر شخصیت ہیں، کی توہین کی ہے۔ یہ اقدام صرف ایک شخص اور رہبر معظم کی توہین نہیں تھی بلکہ عالم کفر نے دکھایا کہ وہ اسلام سے خوفزدہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی انقلاب خالص اور ناب اسلام کو میدان عمل میں لایا اور اس کے سائے میں اس انقلاب سے طاقت، وقار، آزادی اور خودمختاری روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ الٰہی دین کی کشش، اسلامی انقلاب اور اس مذہبی حکومت کے پرچم نے جس کا حکمران خدا پر بھروسہ کرتا ہے اور انسانیت کو بچانا چاہتا ہے اور اسی طرح مقاومتی محاذوں کی پیدائش نے بھی مغربی دنیا کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ایسے ایسے آتشیں اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے دیکھا کہ کشش مزید بڑھ گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ دشمنوں نے دیکھا کہ وہ دہشت گردی کر کے، بغاوت کی منصوبہ بندی کر کے، دراندازوں کو بھیج کر، فتنہ و فساد برپا کر کے، قومیتوں کو بھڑکا کر اور نسلی عصبیت پر اکسا کر اس عظیم آسمانی موج کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے، اس لیے انہوں نے ایک ناقابل بیان جرم اور عجیب سفاکیت کا ارتکاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ در عین حال وہ آزادی کا دم بھرتے ہیں اور ان کے ملک میں اگر کوئی غیر مسلم محقق ہولوکاسٹ کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے گرفتار کر کے جرمانہ کر دیتے ہیں۔ جو بھی ان کے ملک میں اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرنا چاہتا ہے اسے پلیٹ فارم نہیں دیا جاتا اور اس حوالے سے گھٹن زدہ ماحول پیدا کیا ہوا ہے۔ اس طرح کے دعووں کے ساتھ وہ الہامی اور الہی مذاہب کی توہین اور بے حرمتی کی حمایت کرتے ہیں جن میں زندگی ساز  مذہب اسلام بھی شامل ہے۔

آیت اللہ صدیقی نے مزید کہا کہ تمام مغربی حکومتیں اس سمت میں کام کر رہی ہیں اور ان کے اقدامات باری باری ہو رہے ہیں۔ ایک دن ہالینڈ میں، ایک دن سویڈن میں، ایک دن جرمنی میں اور ایک دن امریکہ میں، وہ اپنے مقاصد کو آگے بڑھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خدا کی قدرت ان کے گھات میں ہے، دوسری طرف وہ توحیدی اور اسلامی معاشروں کو آزمانا چاہتے ہیں۔ خدا کے فضل سے مختلف ممالک میں لوگوں نے اس عظیم جرم کی مذمت کی اور اس سے نفرت کا اعلان کیا۔ آج ہمارے ملک کی تمام نماز جمعہ میں ہمارے بہادر لوگ اپنا فرض نبھائیں گے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس گھناونے جرم اور مقدسات کی توہین کے تسلسل میں انہوں نے کچھ افراد اور اداروں پر پابندی عائد کی۔ سپاہ پاسداران انقلاب ان اداروں میں سے ایک تھا جسے وہ ایک دہشت گرد فورس کے طور پر متعارف کرانا چاہتے تھے۔

تہران کے عبوری امام جمعہ نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سپاہ پاسداران انقلاب ایک ایسی تنظیم ہے جس نے اپنی پیدائش کے پہلے دن سے ہی اپنے آپ کو دین، ملک، اور عوام اور انقلاب کے تحفظ و سلامتی کے لیے قربان کیا ہے۔ خوشی اور غم میں، شہر اور گاؤں میں ہر جگہ ملک و قوم کی مددگار بن کر موجود ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ گروہ شہادت کے لیے ہمہ وقت تیار ہے اور اس نے نہ صرف ملت ایران اور مقاومتی محاذ کے لیے، نہ صرف غزہ، یمن اور دیگر حریت پسند ملکوں کے لیے بلکہ خود یورپیوں اور امریکیوں کے لیے بھی عظیم ترین خدمات انجام دی ہیں، تاکہ داعش نامی آگ کو جو خود مغرب والوں کے ہاتھوں بھڑکائی گئی گھی، بجھا دیا جائے۔

آیت اللہ صدیقی نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ یہ شہید سلیمانی ہی تھے جنہوں نے اپنے اقدام اور خدا پر توکل کے ساتھ مختلف ملکوں سے مجاہدین کے ایک گروہ کو جمع کیا اور داعش کی آگ کو بجھانے کے لیے ایک مضبوط محاذ تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے۔ داعش جو امریکہ اور یورپ کے ہاتھوں سے تیار کردہ ایک گروہ تھا۔  یہ گروہ بدامنی اور عدم تحفظ کو عالمگیر بنانے کی سمت بڑھ رہا تھا لیکن شہید جنرل سلیمانی امن و سلامتی کی نوید لے آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مغرب نے اس جرات و شہامت، طاقت، اثر و رسوخ اور پائیداری کا بدلہ لینے کے لیے وہ شرمناک کارروائی کی لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح کے اقدامات سے سپاہ پاسداران انقلاب مزید مضبوط ہوگی اور پہلے سے بڑھ کر ان کی ناک زمین میں رگڑ دی جائے گی۔