عراقی وزیر اعظم نے جرمن نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ ان کا ملک ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کا نیا دور شروع کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ریاض اور تہران نے بغداد کی ثالثی پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عراقی ویب سائٹ نے بتایا کہ ہے عراقی وزیر اعظم محمد شیاع السوڈانی جرمنی کا اپنا دو روزہ مکمل کر کے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ عراقی وزیر اعظم نے اپنے دورے کے دوران جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کو بھی انٹرویو دیا جس میں انہوں نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اور ایران سعودی عرب کو نزدیک لانے کے لئے بغداد کی کوششوں سمیت مختلف موضوعات پر بات کی۔ 

انٹرویو کے ایک حصے میں عراقی وزیر اعظم نے کہا کہ عراق اور پڑوسی ممالک کے مابین باہمی احترام، مشترکہ مفادات اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر مبنی متوازن تعلقات عراقی حکومت کے لیے بہترین نقطہ نظر ہے۔ ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ ہمارے نمایاں تعلقات اور مشترکہ مفادات ہیں۔

انہوں نے ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کی پھر سے بحالی کے لیے عراق کی کوششوں کی طرف بھی اشارہ کیا اور مزید کہا کہ ایران اور سعودی عرب سمیت خطے کے ممالک کے درمیان نظریات کو قریب لانے کی کوشش ایک ایسا نقطہ نظر ہے جس پر عراقی حکومت نے عمل کیا ہے اور جاری رکھے ہوئے ہے۔ بغداد کا خیال ہے کہ اس نقطہ نظر سے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی جس کے نتیجے میں عراق اور خطے کی سلامتی پر اثر پڑے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور سعودی عرب بھی اس عمل کا خیر مقدم کرتے ہیں اور مستقبل قریب میں ان مذاکرات کو بغداد میں دوبارہ شروع کرنے کے لیے عراق کی کوششیں جاری ہیں۔ السوڈانی نے ایک بار پھر عراق اور ایران کے تعلقات کو بہت اچھے اور تعمیری قرار دیتے ہوئے کہا کہ عراق اور ایران میں عرب ممالک کی طرح مذہبی، ثقافتی اور سماجی مشترکات ہیں۔السوڈانی نے ترکیہ کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات پر بھی بات کی اور کہا کہ ترکیہ کے ساتھ ہمارے مذہبی، ثقافتی اور سماجی مشترکات ہیں لیکن اب ان تعلقات کو مشترکہ مفادات کے دائرے میں رکھ کر کنٹرول کرنا اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کے تحت دیکھا جا رہا ہے۔

مذکورہ جرمن نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو کے ایک اور حصے میں عراقی وزیر اعظم نے دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکنے اور انسداد منشیات کے لیے سرحدی حفاظت پر اپنی حکومت کی خصوصی توجہ پر زور دیا اور کہا کہ ہم نے متعدد بارڈر کراسنگ سے اسمگلنگ کی کوششیں دیکھی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایران اور ترکیہ کی سرحدوں پر دہشت گرد اور علیحدگی پسند گروہوں سے نمٹنے کے لیے بغداد کے عملی اقدامات کا آغاز ہوچکا ہے۔کیونکہ وقتاً فوقتاً ان علاقوں میں ایسے گروہ ہوتے ہیں جو پرتشدد کارروائیاں کرنے کے لیے ایران یا ترکیہ میں داخل ہوتے ہیں اور یہ ہمارے آئین کے خلاف ہے جو عراق کو پڑوسی ممالک پر حملہ کرنے کی جگہ کے طور پر استعمال کرنے سے منع کرتا ہے۔

السوڈانی نے عراق میں سیاسی عمل پر عراق کی دینی مرجعیت کے واضح موقف کو بھی سراہا اور کہا کہ اعلی دینی قیادت اور دینی مرجعیت سیاسی عمل کی حمایت اور تمام فرقوں، مذاہب اور طبقات سمیت عراقی عوام کی حمایت میں واضح موقف رکھتی ہے اور ان حمایتوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔