ایرانی وزیر خارجہ نے اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی حکومت کو مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے جمعرات کے روز اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہ سے ٹیلیفون پر بات چیت کی۔ 

دونوں رہنماوں نے خطے اور مسلم دنیا کی تازہ ترین پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا، جس میں صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر کی طرف سے مسجد اقصیٰ پر حالیہ حملہ، ایک بدنام زمانہ فرانسیسی میگزین کے حالیہ توہین آمیز اقدام اور افغانستان میں خواتین کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

امیر عبداللہیان نے زور دے کر کہا کہ مسجد اقصیٰ پر حملے کے نتائج اسرائیل کی جعلی حکومت کے لیے سنگین ہوں گے۔ایرانی وزیر خارجہ نے مقدس مذہبی مقامات کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے ایک موثر قانونی اور بین الاقوامی طریقہ کار بنانے کی تجویز بھی پیش کی۔انہوں نے مسجد اقصیٰ کی حالیہ صہیونی بے حرمتی اور ایک بدنام زمانہ فرانسیسی میگزین کے توہین آمیز اقدام کی مذمت میں او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کے موقف کو بھی سراہا۔

اس سلسلے میں فرانس کی حکومت کی ذمہ داری کا ذکر کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ بدنام زمانہ فرانسیسی میگزین کے اس اقدام میں صہیونیوں کا کردار دیکھا جاسکتا ہے۔حسین ابراہیم طحہ نے اپنی گفتگو کے دوران مسجد الاقصی کی حالیہ صہیونی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے صہیونی حکومت کے وزیر کی طرف سے مسجد اقصیٰ پر حملہ کرنے کے اقدام پر تشویش کا اظہار کیا۔

او آئی سی کے سیکریٹری جنرل نے صہیونیوں کے اس طرح کے اشتعال انگیز اقدامات کو خطے میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ وہ صہیونی حکومت پر ایسی حرکتوں کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے مختلف اداروں سے بات چیت کر رہے ہیں۔انہوں نے فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے توہین آمیز اقدام کی مزید مذمت کی اور مزید کہا کہ ہم اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں تاکہ اس کا جواب دینے کے لیے متناسب کارروائی کی جا سکے۔

دونوں رہنماوں نے افغانستان میں لڑکیوں اور خواتین کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی کے طالبان کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان اقدامات کو اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیا۔

نیز دونوں نے تہران اور ریاض کے درمیان ہونے والے مذاکرات پر بھی توجہ دی جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔