مہر خبررساں ایجنسی نے المنار کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے معروف لبنانی شیعہ عالم علامہ سید محمد علی الامین مرحوم کی یاد میں منعقدہ تقریب میں اس ممتاز اور عظیم عالم دین کے انتقال پر تعزیت پیش کرتے ہوئے ان کی شخصیت کی تعریف و تمجید کی۔
انہوں نے کہا کہ علماء کے ذریعے ہمیں ملک اور اپنی قوم کی حقیقی تاریخ معلوم ہوتی ہے۔ تاریخ کے مطالعہ کا مقصد سیکھنا اور اسے مستقبل کے لیے استعمال کرنا ہے۔ ان علماء کی تاریخ کے بغیر اس ملک کی تاریخ کو سمجھنا ممکن نہیں اور ہمیں ان کے آثار اور کارناموں کو محفوظ کرنے کی سمت میں آگے بڑھنا چاہیے کہ جن میں سے بہت سے تباہی اور جل کر ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
حزب اللہ لبنان کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ جو چیز مطلوب ہے وہ اجتماعی اقدام اور وسیع تعاون ہے اور ہمیں اپنے علماء کی تاریخ کو محفوظ رکھنے کے لیے اجتماعی کوشش کرنی چاہیے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں ایک ایسا رجحان تھا کہ علمائے کرام کے صرف مذہبی فرائض ہوتے ہیں اور انہیں سیاسی معاملات اور صہیونی دشمن کے ساتھ فوجی تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے۔ یہی وہ مسئلہ تھا جس سے امام موسیٰ صدر رنجیدہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ ان علمی اور ثقافتی حلقوں کی طرف سے امام موسی صدر کے نظریے اور روش پر بہت سے الزامات لگائے گئے۔ ابتدا ہی سے اس مرحوم (علامہ) کا انتخاب علم و بصیرت پر مبنی تھا اور امام موسیٰ صدر کے ساتھ شامل ہوئے۔ علامہ الامین نے صور میں اسلامی مطالعات کے مرکز یا شیعوں کی سپریم اسلامی کونسل میں بنیادی کردار ادا کیا جہاں وہ اپنی موت تک اس کے شرعی بورڈ کے رکن رہے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ اس مرحوم عالم نے مرکز مطالعات اسلامی میں نئے علماء کی تربیت میں ہمت صرف کی کہ جس کا انتظام ان کے ہاتھوں میں تھا۔ اس مرکز کے طلباء میں شہدائے مقاومت کے سید و سردار سید عباس الموسوی بھی تھے۔ اس عظیم علامہ کے دور کے واقعات عظیم واقعات تھے جن میں غاصب اسرائیل کے حملے اور فلسطینی قوم کو بے گھر کرنا، 1967 کی جنگ، بیت المقدس پر قبضہ، جنوبی لبنان پر صیہونی حکومت کے حملے اور لبنان کے خلاف اسرائیل کی جنگیں شامل ہیں جن میں سے آخری 33 روزہ جنگ ہے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ مرحوم علامہ الامین شروع سے ہی مقاومت کے آپشن کے حامی تھے اور اس کی فتح پر فخر کرتے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سید الامین نے قومی ذمہ داریاں سنبھالیں اور وہ امام سید موسی الصدر کی ٹیم کے اہم رکن تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لبنان میں ہماری فتح، امن، سلامتی اور فخر سید محمد علی جیسے علماء کی وجہ سے قائم ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سید الامین نے شام میں تکفیری گروہوں کے خلاف مقاومت کی حمایت کی کیونکہ وہ ان کی منصوبہ بندی کے خطرے کے بارے میں جانتے تھے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ لبنانیوں کی عزت و کرامت کو خود لبنانیوں نے اپنے لئے حاصل کیا ہے، نہ کہ سلامتی کونسل، اقوام متحدہ یا کسی دوسرے فریق نے۔ دنیا کا کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی کوئی بین الاقوامی قانون ہے اور یہ جنگل کے قانون سے بھی بدتر ہے۔
انہوں نے مقاومت اور اس کے خلاف حملوں سے متاثر نہ ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ آج فلسطینی مذاکرات اور اوسلو سے مایوس ہیں اور مغربی کنارے، غزہ اور تمام خطوں میں مقاومت غالب ہے۔ فلسطینیوں کے سامنے مزاحمت کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج ہمیں امن و سلامتی اور مقاومت کی نعمت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مقاومت کی نعمت سے چمٹ کر رہنا چاہیے اور ان وہم و قیاس آرائیوں پر مبنی شورشرابے زیر اثر نہیں جانا چاہیے۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل ریپبلکن سینیٹر نے واضح طور پر شام اور عراق کے واقعات کا ذکر کیا تھا اور تیل، گیس اور گندم کی چوری کی بات کی تھی تاکہ لوگ سردی اور بھوک سے مر جائیں اور تباہ ہو جائیں۔
حزب اللہ کے سربراہ نے کاریش کی مشترکہ تیل اور گیس فیلڈ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ثالث کے خط کی روشنی میں سمندری سرحد کی حد بندی کا معاملہ فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ امریکی ثالث کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے لبنانی ریاست کی حمایت کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بحری فتح قومی یکجہتی کا ثمر ہے اور اس سے لبنان کو اقتصادی بحران سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
حسن نصر اللہ نے لبنان کی سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ نئے صدر کے انتخاب کے لیے پہلے پارلیمانی اجلاس نے ثابت کیا کہ کسی بھی سیاسی ٹیم کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ قانون سازوں کو ایسے صدر کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے جو مقاومت کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔
انہوں نے عالمی صورتحال کے بارے میں بھی کہا کہ روس اور یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے دنیا کا چہرہ بدل سکتا ہے اور حالیہ پیش رفت بہت بڑی ہے اور پوری دنیا کو متاثر کرے گی۔
اپنے خطاب میں ایک دوسری جگہ انہوں نے کہا کہ نام نہاد داعش ختم ہوگئی ہے لیکن منصوبہ بدستور قائم ہے۔ داعش کو ایک حکمرانی نظام کے طور پر ختم کیا گیا تھا، نہ کہ ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر جو کہ افغانستان میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ داعش پر امریکی اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے جبکہ اس کا ایک بڑا حصہ افغانستان منتقل کیا جاچکا ہے اور ہم موجودہ حالات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ افغانستان میں 50 سے زائد بے گناہ لوگ شہید ہوئے لیکن بین الاقوامی سطح پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ شام اور عراق میں داعش کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوششیں چل رہی ہیں۔ جس نے داعش کو بنایا یعنی امریکہ اب بھی اس کی حمایت کر رہا ہے اور اس کے لیے محفوظ حالات پیدا کر رہا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ نے ایران میں حالیہ فسادات اور ہنگامہ آرائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے حمایت یافتہ غنڈہ عناصر تمام ایرانیوں پر پابندیوں کی ناکامی کے بعد اسلامی جمہوریہ کو للکارنے کے لیے ایک مبہم ومشکوک موت کے واقعے کو استعمال کر رہے ہیں۔
دریں اثنا انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران بہت مضبوط ہے جسے اس طرح کے چھوٹے واقعات سے ہلایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ یکے بعد دیگرے امریکی حکومتیں جانتی ہیں کہ وہ ایران کے خلاف جنگ نہیں کر سکتے کیونکہ ایران مضبوط ہے۔ ایران کے خلاف پابندیوں کا مقصد عوام کو اسلامی نظام کے خلاف بھڑکانا تھا جیسے کہ انہوں نے لبنان میں مقاومت کے خلاف لوگوں کو اکسایا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ مغربی ممالک افغانستان میں اسکول کی طالبات پر دہشت گردانہ حملوں کی مذمت نہیں کرتے جس میں 50 لڑکیاں جاں بحق ہوئی ہیں، تاہم تحقیقات کے نتائج سامنے آنے سے قبل ایرانی خاتون کی ہلاکت کے لیے پروپیگنڈہ جنگ چھیڑنے میں تیزی دکھا رہے ہیں۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ عراقی عوام شہید حاج قاسم سلیمانی کی موجودگی اور داعش کے خلاف ایران کے عراق کے ساتھ کھڑے ہونے کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ عراق کے عوام سعودی عرب سے کیسے دوستی کا اظہار کرسکتے ہیں جس نے عراق میں 5000 خودکش بمبار بھیجے اور اسلامی جمہوریہ ایران سے کیسے نفرت کر سکتے ہیں جس نے عراق کو آزاد کرانے کے لیے کسی اقدام سے دریغ نہیں کیا؟ ایران کو کوئی لالچ نہیں ہے جبکہ امریکہ سمیت دیگر ممالک عراق کے تیل کے وسائل اور دولت کے لالچی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ، اس کے عوام اور نظام علاقائی اقوام سے کچھ نہیں چاہتے اور عراقی قوم سے کچھ نہیں چاہتے۔ ایران اور اس کی قوم کے خلاف مسلسل اشتعال انگیزی امت اسلامیہ کو تقسیم کرنے کی مذموم شیطانی حرکت ہے۔ ایران مضبوط اور عزیز ہے اور اس کے رہبر کی دانشمندی اور مخلص عوام کے ہوتے ہوئے اس پر کسی گزند کا لگنا ممکن نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے چاہنے والے اپنے آپ کو غمگین نہ کریں کیونکہ موجودہ حالات سے کہیں زیادہ مشکل واقعات پیش آچکے ہیں۔
سید حسن نصر اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ دشمن ایران کے حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں جن میں حاج قاسم سلیمانی کا تاریخی تشییع جنازہ اور ایران میں مذہبی مناسبتوں پر ہونے والی رسومات و تقریبات شامل ہیں، مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران پہلے سے زیادہ مضبوط اور بہادر ہے۔ ایران کے حقیقی حکمران امام مہدی علیہ السلام ہیں۔ مغربی ممالک اور خلیج فارس کے ممالک اسلامی جمہوریہ کے خلاف اقوام کو اکسانے کی راہ پر گامزن ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیمپ ڈیوڈ کے بعد اگر ایران نہ ہوتا تو فلسطین، قدس اور لبنان کہاں ہوتے؟ آج مقاومت کی طاقت کے محور کا سب سے اہم عنصر اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ اگر اسلامی جمہوریہ ایران داعش کے خلاف خطے کے ممالک کے ساتھ کھڑا نہ ہوتا تو ان ملکوں کی حکومتیں کہاں ہوتی؟ امریکہ جو یوکرین کی حمایت کا دم بھرتا تھا جب یوکرین کے صدر نے نیٹو میں شمولیت کی درخواست کی تو اس نے اعلان کیا کہ وقت مناسب نہیں ہے۔ امریکہ تو نہیں چاہتا کہ امریکیوں کے ذریعے روس لڑے بلکہ یوکرینیوں اور پھراس کے بعد یورپ والوں کے ذریعے روس سے لڑنے کے خیال میں ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اپنے دوست اور دشمن کو پہچانو اور اگر تم دشمن سے لڑنا نہیں چاہتے تو کم از کم اس سے پناہ نہ لینا کیونکہ تم اس سے خیانت کے سوا کچھ اور نہیں دیکھو گے۔