مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے عیدالاضحی کے موقع پر قوم کو مبارک باد دیتے ہوئے اپنے پیغام میں کہاہے کہ انسان کا اپنے خالق کی رضا اور مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کرنا قربانی کہلاتاہے۔ خداوندکریم کے احکام اور اس کی منشاءکے تحت عمل انجام دینا انتہائی اعلی و ارفع ہدف ہے۔ اگر قربانی کے وقت یہی اعلی ہدف پیش نظر ہو تو قربانی قبول ہوتی ہے اور اس کے فوائد و اثرات بھی ظاہر ہوتے ہیں ورنہ یہی قربانی مال‘ عزت اور وقت کا ضیاع تصور ہوسکتی ہے۔ اگرچہ قربانی کا مظہر انسان کے فطری اور معاشرتی تقاضوں کے پیش نظر کوئی نہ کوئی رسم ہی ہوتی ہے لیکن یہ رسوم اصل ہدف نہیں ہوتیں بلکہ قربانی کے اہداف کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہیں لہذا قربانی اور اس جیسے دیگر صالح اعمال کو فقط رسموں تک محدود کردینے سے اصل ہدف اوجھل ہوجاتا ہے جس سے اس قربانی کی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی۔ اگرچہ عید الاضحی کے دن نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس عظیم قربانی کی یاد میں جانور قربانی کرنے کی رسم بھی ادا کی جاتی ہے لیکن جانوروں کی قربانی تو محض ایک علامت ہے جس سے اس بات کا درس ملتا ہے کہ اگر خدا کی راہ میں ہمیں اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو قربان کرنا پڑے تو اس میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور گریز سے کام نہیں لیا جائے بلکہ اسے احکامات خداوندی کی پیروی اور خدا کے نظام کے استحکام کا ذریعہ سمجھ کر ادا کردیا جائے۔
علامہ سید ساجد نقوی کا کہنا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کی یہ لازوال قربانی انسانیت اور اسلام سے وابستہ لوگوں کے لئے اطاعت و ایثار کا عملی اور حسین نمونہ ہے تاکہ وہ اپنے مفادات‘ ذاتی خواہشات‘ غلطیوں‘ کوتاہیو ں اور خطاﺅں کو قربان کرنے کے بعد جانور کی قربانی کریں اور ان کے سامنے یہ نظریہ نہ ہو کہ خدا کے حضور ان کے قربان کردہ جانور کا گوشت پوست اور خون پہنچتا ہے بلکہ صدق و یقین سے یہ بات ان کے مدنظر ہونا چاہیے کہ قربانی تو ایک ذریعہ ہے لیکن اصل میں ان کا ہدف ان کی نیت‘ ان کا ایثار‘ خلوص اور جذبہ خدا کے حضور پیش ہوتا ہے لہذا انہیں عید الاضحی مناتے وقت اور قربانی کرتے وقت اس خاص امر کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
قائد ملت جعفریہ پاکستا ن نے یہ بات زور دے کر کہی کہ عید الاضحی کے نیک اور بابرکت موقع پر ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم انبیاءکرام‘ ائمہ معصومین ؑ‘شہدائے اسلام کی قربانی سے بالخصوص حضرت ابراہیم و اسماعیل ؑ کی قربانی سے الہام اور سبق لیتے ہوئے عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ایک راہ متعین کریں گے ۔ امت مسلمہ کے اتحاد اور ترقی میں رکاوٹ بننے والے عوامل‘ بحرانوں‘ چیلنجز اور مشکلات کے خاتمے کے لئے اقدامات کریں گے۔