مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری اور دوسری روایت کے مطابق 183 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ اور دوسری روایت کے مطابق خیزران تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں"۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں امام ھشتم علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور زودھنگام شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت چھین لی تھی لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیںحضرت امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد ۲۰۱ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں راستہ میں ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت (ع) کے مخالف تھے لہٰذا انھوں نےحکومتی اہلکاروں سے مل کر حضرت فاطمہ معصومہ (س) اور ان کے قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سے افراد شہید ہوگئے حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا : مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے : قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔
اس طرح حضرت معصومہ (س) ساوہ سے قم روانہ ہوگئیں ۔
بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے ، موسیٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ (ص) اہل قم کے والہانہ استقبال میں شہر میں وارد ہوئیں ۔ موسیٰ بن خزرج کے ذاتی مکان میں نزول اجلال فرمایا ۔
حضرت معصومہ (س) نے ۱۷دنوں تک قم میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں اس طرح اپنی زندگی کے آخر ی ایام اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز اور انتہائي خضوع و خشوع کے ساتھ بسر فرمائے ۔
حضرت معصومہ سلام اللہ علیھا کی رحلت اور کفن و دفن:
جس جگہ پر ابھی حضرت معصومہ ( س )کی قبر مطہر ہے یہ اس زمانے میں "بابلان" کے نام سے پہچانی جاتی تھی اور موسی بن خزرج کے باغات میں سے ایک باغ پر مشتمل تھی۔ حضرت معصومہ س کی وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا۔ پھر انہیں اسی جگہ لایا گیا جہاں پر ابھی ان کی قبر مطہر ہے۔ آل سعد نے ایک قبر آمادہ کی۔ اس وقت ان میں اختلاف پڑ گیا کہ کون حضرت معصومہ س کے بدن اقدس کو اس قبر میں ڈالے گا۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوا کہ ان میں موجود ایک متقی اور پرہیزگار سید یہ کام کرے گا۔ جب وہ اس سید کو بلانے کیلئے جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ناگہان صحرا میں سے دو سوار آ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے چھپا رکھا تھا۔ وہ آئے اور حضرت معصومہ س کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد انہیں دفن کر کے چلے گئے۔ کوئی بھی یہ نہیں جان سکا کہ وہ کون تھے۔ اس کے بعد موسی بن خزرج نے قبر مطہر کے اوپر کپڑے کا ایک چھت بنا دیا۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کی صاحبزادی زینب قم تشریف لائیں تو انہوں نے حضرت معصومہ (س )کی قبر پر مزار تعمیر کیا۔ کچھ علماء نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ بانقاب چہروں والے سوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام محمد تقی جواد علیہ السلام تھے۔ قم میں باعظمت امامزادگان کی قبور کی تعداد تقریباً 400 ہے۔ ان سب کے درمیان وہ درخشان ستارہ جس کی روشنی سے قم کا آسمان روشن ہے اور وہ چاند جسکی روشنی کی وجہ سے تمام ستارے ماند پڑ گئے ہیں، شفیعہ محشر، کریمہ اہل بیت علیھم السلام، امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی قبر مطہر ہے۔ "قاموس الرجال" کے مصنف علامہ حاج محمد تقی تستری لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کے تمام فرزندان میں امام علی رضا علیہ السلام کے علاوہ کوئی حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے ہم پلہ نہیں ہے"۔ عظیم محدث جناب شیخ عباس قمی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: "جو معلومات ہم تک پہنچیں ہیں انکے مطابق ان میں سب سے افضل سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت موسی علیہ السلام ہیں جو معصومہ کے لقب سے معروف ہیں۔
آپ کا تبصرہ