مہر خبررساں ایجنسی کے نامہ نگار کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے گروپ 1+5 اور ایران کے درمیان 15 و 16 اکتوبر کو جنیوا میں منعقد ہونے والے مذاکرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنیوا مذاکرات میں ظریف اور اشٹائن کی موجودگی یقینی ہے۔ عراقچی نے نیویارک سے ٹی وی چینل ایک کے پروگرام نگاہ میں براہ راست گفتگو میں امریکہ اور ایران کے صدور کی ٹیلیفونی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ نیویارک میں ایرانی صدر روحانی کے ساتھ ملاقات کا شوق دنیا کے تمام ممالک کی جانب سے دیکھ کر امریکی صدر اوبامہ نے بھی ملاقات کی درخواست کی ۔
انھوں نے کہا کہ امریکی صدر کی درخواست پر غور کرنے کے لئے وقت کافی نہیں تھا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان 33 سال کی کشیدگی کے بعد ملاقات کے مناسب شرائط موجود نہیں تھے اور ایرانی قوم کے ساتھ امریکہ کی دشمنی کا سلسلہ جاری ہے اور ایران کے بارے میں ہم امریکہ کی لفظی تبدیلی کے ساتھ اس کی عملی تبدیلی بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب ایرانی صدر نے حضوری ملاقات سے انکار کردیا تو پھر ٹیلیفونی گفتگو کا موضوع سامنے آیا اور اس میں بھی پہل امریکہ نے کی انھوں نے کہا کہ حضوری اور ٹیلیفونی دونوں ملاقات کے لئے پہل امریکہ نے کی اور ایران نے پہلی پیشکش رد کرتے ہوئے دوسری پیشکش کا مثبت جواب دیدیا اور دونوں ممالک کے صدور نے ایران کے ایٹمی معاملے کو حل کرنے پر تاکید کی۔ عراقچی نے کہا کہ ایک امریکی اہلکار نے اس سلسلے میں غلط اظہار کیا ہے جس کے بارے میں ایران نے اعتراض کردیا ہے اور امریکہ نے اس اظہار کو اشتباہ قراردے دیا ہے۔ عراقچی نے کہا گفتگو کی پیش کش امریکہ کی طرف سے تھی اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں اور کسی کی غلط بیانی سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔عراقچی نے کہا کہ ایران کو امریکہ کے بیانات پر کبھی بھی اطمینان نہیں رہا کیونکہ امریکہ کی پالیسی متضاد پالیسی ہے اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کا وہ جملہ ہمیشہ ہمارے سامنے ہے جس میں انھوں نے فرمایا" امریکہ قابل اعتماد نہیں اور اس کے ساتھ مذاکرات کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے" عراقچی نے کہا کہ ایران ، امریکہ کے مؤقف میں عملی تبدیلی دیکھنا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ گھشتہ 33 برسوں میں ایران اور امریکہ کے صدور کے درمیان نیویارک میں پہلا ٹیلیفونی رابطہ ہوا ہے جس مبصرین اہم قرار دے رہے ہیں لیکن ایران ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس رابطہ پر کافی محتاط ہے۔
آپ کا تبصرہ