ایرانی وزیرخارجہ نے لبنانی اخبار میں اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ پرچم بدلنے سے شامی عوام کی توقعات پوری ہونے کی سوچ غلط ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے لبنانی اخبار "الاخبار" میں اپنی یادداشت میں اس بات پر زور دیا ہے کہ موجودہ حالات میں اسلامی دنیا کو شام اور فلسطین کے مستقبل کے بارے میں شدید تشویش لاحق ہے۔

شام سخت امتحان میں کے عنوان سے چھپنے والے مضمون میں عراقچی نے لکھا ہے کہ یہ علاقے صدیوں سے اسلامی دنیا کے سیاسی مستقبل کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں ان کی حاکمیت کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں انہیں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ یورپی سفارتکاروں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہیں اکثر یہ کہا جاتا تھا کہ جرمنی کے لوگ نازی حکومت کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے لیے شرمندہ اور خود کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ یہ مسلم ہے کہ نازیوں کے دور میں یورپ میں ہونے والے وحشیانہ مظالم نے دنیا بھر میں گہرے اثرات چھوڑے تاہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے جرائم کے لیے کون جوابدہ ہے؟ جس نے فلسطینیوں کی زمین کو قبضہ میں لے کر بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی کی اور فلسطین کے ہمسایہ ممالک کی خودمختاری کو بھی نشانہ بنایا۔

انہوں نے لکھا ہے کہ حالیہ اسرائیلی حملے، خاص طور پر 14 اکتوبر 2024 کو غزہ کے شهداء الاقصی ہسپتال پر ہونے والے حملے نسل کشی کا ایک جدید نمونہ ہے۔ اسرائیل کے یہ اقدامات عالمی سطح پر انسانیت کے لیے ایک شرمندگی کا باعث ہیں۔
سید عباس عراقچی نے اپنی یادداشت میں اسرائیل کے جنگی جرائم اور شام پر حملوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایسی ریاست پر حملہ کرنے کا ذمہ دار کون ہے جو خود سخت حالات سے گزر رہی ہے اور حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت کی تشکیل کے بحران کا سامنا کر رہی ہے؟ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کے اقدامات کے بارے میں اظہار افسوس اور تشویش صرف الفاظ کی حد تک محدود ہیں، جو اکثر بے معنی لگتے ہیں۔

عراقچی نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینیوں اور دوسرے مظلوم لوگوں کے لیے مقاومت ہی واحد حل ہے۔ مقاومت اس خطے کے عوام کے دلوں میں صدیوں سے پنپتی آئی ہے اور ماں باپ نے اس کو اپنے بچوں کو منتقل کیا ہے۔ 

سید عباس عراقچی نے اپنی یادداشت میں مزید لکھا ہے کہ اگر ہم یہ تصور کریں کہ ایک ملک کے پرچم کا رنگ بدلتے ہی اس کے اجتماعی آرمان اور توقعات بھی پوری ہوں گی تو یہ ایک غلط فہمی ہوگی۔ شامی عوام وہی لوگ ہیں جنہوں نے 1973 کی جنگ میں مزاحمت کی تاریخ رقم کی۔ حالیہ واقعات کے باوجود شامی عوام اپنے اصولوں اور فلسطین کے حق میں اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں اور اس بات کو ثابت کیا کہ شامی عوام ابھی تک مزاحمت کی جدو جہد میں شریک ہیں۔

انہوں نے اپنی یادداشت میں مزید لکھا ہے کہ حالیہ واقعات شامی ریاست کی حاکمیت، سرحدی سالمیت اور ریاستی اداروں کے خاتمے کا سبب نہیں بننے چاہئیں بلکہ اس وقت شامی عوام کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔

عراقچی کے مطابق شام کی موجودہ صورتحال ایک سخت آزمائش سے کم نہیں ہے، جس میں دہشت گرد تنظیموں جیسے داعش اور القاعدہ کی سرگرمیاں، اسرائیل کی جارحیت، اور امریکی اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت شامل ہیں۔ ان تمام چیلنجز کے باوجود شام کے عوام کی مزاحمت اور استقامت قابل تعریف ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ شام کی موجودہ مشکلات سے نجات کا واحد راستہ شامی عوام کی مکمل شمولیت کے ساتھ آزادانہ انتخابات ہے، جس میں تمام شہریوں کی رائے کو عزت دی جائے اور ایک ایسا سیاسی نظام تشکیل دیا جائے جو ملک کے تمام طبقوں کی نمائندگی کرے۔ یہ ایران کی خارجہ پالیسی کی بنیاد اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۲۵۴ کے مطابق ہے۔