مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: شہداء زندہ ہیں۔ وہ اپنی شہادت کے بعد بھی سیاسی، ثقافتی اور اجتماعی حوالے سے زندہ انسانوں پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ ان کی تاثیر ختم نہیں ہوتی ہے۔ وہ معاشرے کی ہدایت کرتے ہیں۔ ان کے زندہ اور تاثیر گذار ہونے کی وجہ سے ہی کہا گیا کہ زندہ قاسم سلیمانی اور زندہ ابومہدی المہندس سے زیادہ شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابومہدی تاثیر گزار ہیں۔
شہداء کا اثر صرف اس سرزمین تک محدود نہیں ہے جہاں وہ رہتے یا لڑتے تھے کیونکہ شہداء نے مختلف ممالک جیسے افغانستان، یمن، لبنان، عراق، پاکستان، شام اور نائیجیریا میں جارحیت اور سامراجی قبضے کے خلاف اعلیٰ اہداف حاصل کیے۔ شہادت کے بعد بین الاقوامی سطح پر ان کے اثرات محسوس کئے گئے۔ آج ہم انگلینڈ، امریکہ، فرانس، جرمنی، جنوبی کوریا، اردن، سویڈن اور آئرلینڈ جیسے ممالک میں اس کا اثر دیکھ سکتے ہیں جہاں آزادی کے متلاشی طلباء اور فلسطین کے حامی، فلسطینی قوم کے ساتھ یکجہتی کے مظاہرے کرتے ہیں اور غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کی مسلسل مذمت کرتے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کے بعد بہت سے ممالک مخصوصا مشرق وسطیٰ میں مقاومت معاشرے میں سب سے زیادہ زیربحث آنے والے مسائل میں شامل ہوگئی ہے۔ یمن سے لے کر فلسطین تک صہیونی حکومت کے خلاف ہونے والے مزاحمتی اقدامات موضوع بحث بن رہے ہیں۔
چونکہ ہر معاشرے کو اپنے مقاصد اور اقدار تک پہنچنے کے لیے نمونہ عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ شہداء معاشرے میں رہنے والوں مخصوصا جوان طبقے کے لئے بہترین نمونہ اور رول ماڈل ہوتے ہیں۔ بلاشبہ بہت سے شہداء کی تاریخ نشیب و فراز سے لبریز ہے جس سے عام لوگ مخصوصا جوان نسل واقف نہیں۔ اسی وجہ سے رہبر معظم شہداء کی یاد زندہ رکھنے کی مسلسل تاکید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شہداء کی یادوں کو زندہ رکھنا شہادت سے کم نہیں۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہر نیوز میں شہداء طوفان الاقصی کے نام سے ایک سلسلہ شروع کیا جارہا ہے تاکہ معروف شہداء کی زندگی کے بارے میں قارئین کو کچھ آگاہی حاصل ہوجائے۔
مقدمہ اور پہلی قسط میں ہم نے شہید "مشتاق السعیدی"، دوسری قسط میں شہید "صالح العاروری" اور تیسری قسط میں حزب اللہ کے اعلی کمانڈر شہید "وسام حسن الطویل" المعروف حاج جواد کی جہادی زندگی کا جائزہ لیا گیا۔
اس سلسلے کی چوتھی قسط میں سپاہ پاسداران انقلاب کے اعلی کمانڈر شہید سید رضی موسوی کے بارے میں تحریر پیش خدمت ہے۔
سید رضا موسوی سپاہ پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈروں میں سے ایک تھے، جو شام میں مزاحمتی محاذ کے معاون افسر کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ شام کے دارالحکومت دمشق کے علاقے زینبیہ پر صیہونی حکومت کے حملے کے نتیجے میں شہید ہو گئے۔ سید رضی موسوی سردار قاسم سلیمانی اور سردار محمد حجازی کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے، جو تین دہائیوں سے زائد عرصے تک مقاومتی محاذ کی مدد کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
25 دسمبر 2023 بروز پیر تہران کے وقت کے مطابق شام 4 بجے مقبوضہ گولان سے صیہونی حکومت کے راکٹوں نے دمشق کے شہر زینبیہ میں جنرل موسوی کی رہائشی جگہ کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں سپاہ پاسداران انقلاب کے اس عظیم کمانڈر کی شہادت ہوئی۔ یہ دہشت گرد حملہ قابض صہیونی حکومت کی جانب سے سردار موسوی کو شہید کرنے کی تیسری کوشش تھی۔
شہید قاسم سلیمانی کی پسندیدہ شخصیت، سمندر پار مقاومت کے اولین سپاہی
شہید موسوی کی شہادت کے حوالے سے مقاومتی محاذ کے معاون عملہ کے سربراہ حسن پلارک نے کہا کہ شہید موسوی کا شمار مقاومتی میدان میں بیرون ملک مقیم ان تجربہ کار افسروں میں ہوتا تھا، جنہوں نے تقریباً 25 سال تک مزاحمتی میدان میں اپنا کردار ادا کیا۔ وہ تمام شعبوں میں ہماہنگی کے ذمہ دار تھے۔
پلارک کے مطابق سید رضی موسوی شہید حاج قاسم کے پسندیدہ کمانڈر تھے۔ وہ ہمیشہ سردار سلیمانی کی برسی کے موقع پر شہید ہونے کی خواہش کا اظہار کرتے تھے۔ ان پر اسرائیل نے اس وقت راکٹوں سے حملہ کیا جب وہ اپنے ایک کام سے واپس جارہے تھے۔
شہید رضی شام میں ہر دلعزیز شخصیت
شام میں ایرانی مشیر کمانڈر جعفر اسدی نے سید رضی کے بارے میں کہا کہ شہید سید رضی شہید حاج قاسم کے مورد اطمینان اور قابل اعتماد ساتھی تھے۔ وہ ایک قابل منتظم تھے جس نے شام میں بہترین کام کیا۔ شام میں بشار الاسد سے لے کر عوام تک ہر کوئی اس شہید کو جانتا تھا۔ سید رضا کی فعالیتوں اور خدمات سے سبھی واقف تھے۔
ان کا تذکرہ شام میں موجود ایک تجربہ کار فوجی مشیر کے طور پر کیا جاتا ہے جو شام میں مقاومتی محاذ کی حمایت کی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ اس وقت کے ایرانی سفیر کے مطابق وہ اپنی شہادت کے وقت سفارت خانے کے مشیر دوم تھے اور سفارتی پاسپورٹ کے ساتھ شام میں موجود تھے۔ صہیونی حکومت نے اس سے پہلے بھی ان پر حملے کی کوشش کی تھی۔
سید موسوی کی اسٹریٹیجی؛ ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی مقاومتی محاذ تک منتقلی
شہید موسوی کے ساتھی حاج حسن نے کہا کہ سید رضی جو انقلاب کے فرزندوں میں سے تھے اور سپاہ پاسداران انقلاب کی پہلی نسل میں سے تھے۔ انہوں نے ستر کی دہائی میں مقاومت کے میدان میں قدم رکھا اور اپنی زندگی کے تقریبا 37 سال محورِ مقاومت کی خدمت میں گزارے۔
حاج حسن کے مطابق لبنان کے جنوبی حصوں پر صیہونی حکومت نے جنوبی لبنان پر قبضہ کرتے ہوئے بیروت تک پہنچی تو سید رضی لبنان چلے گئے۔ ان سالوں میں ایران کے حالات مشکل تھے۔ ہتھیاروں کی منتقلی کے لئے حالات بھی ناسازگار تھے کیونکہ لبنان اور شام کے ساتھ ہمارے تعلقات ایسے نہیں تھے کہ ہمارے ہاتھ اور پیر کھلے رہیں اور ہم کسی مشکل کے بغیر آسانی سے منتقل کرسکیں ۔ اسی وجہ سے جب وہ اس علاقے میں داخل ہوئے تو یہ ایک بہت ہی محدود اور بند علاقہ تھا لیکن شہید سید رضی نے شامی اور لبنانی حکام کے ساتھ تعلقات استوار کیے اور ایسا ماحول پیدا کیا کہ ٹیکنالوجی اس علاقے میں منتقل کردی گئی۔ روز بروز مقاومتی محور خود اپنی ضروریات پیدا کرنے کے قابل ہوگیا۔
شہید رضی کے ساتھی نے مزید کہا کہ سید رضی تنظیمی اور غیر تنظیمی تعلقات کے معاملے کو ہم آہنگ کرنے میں کامیاب رہے۔ مقاومت کے لیے ضروری آلات، ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی یہ منتقلی سید رضی کے کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ تھا۔ انہوں نے تین دہائیوں کے دوران مقاومتی محاذ کو بڑی جانفشانی کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا۔
مجھے شہید سمجھو
حاج حسن نے بیان کیا کہ اس شہید نے اپنا سارا وقت کام میں لگا دیا اور شاید کئی دنوں اور ہفتوں تک اپنے اہل خانہ سے ملاقات تک نہیں کی۔ ہمیں اس عظیم شہید کی اہلیہ اور اہل خانہ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جنہوں نے شہید رضی کے لیے حالات فراہم کیے۔ گذشتہ تیس سالوں سے میرا ان سے خاندانی تعلق رہا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ وہ ہفتوں تک گھر نہیں جاتے تھے۔ سید رضی جب کام کرتے تھے تو وہ دن رات کام کرتے تھے۔ بعض اوقات کئی راتیں کام میں مصروف رہتے تھے۔ انہوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر کام کے لیے وقف کر دیا تھا۔ وہ کام پر پوری طرح دھیان رکھتے تھے۔ انہوں نے مقاومتی محاذ کی ایسی خدمت کی جس کے نتیجے میں آج مقاومت تناور درخت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ انہوں نے ان سالوں میں فلسطین، لبنان اور شام میں مقاومت کی حمایت میں مسلسل اور موثر کردار ادا کیا ہے۔
شہید سید رضی کی اہلیہ سیدہ مہناز عمادی نے اس وقت کے بارے میں کہا جب سید رضی رشتے کا پیغام لے کر آئے تھے۔ سید رضی نے بہت سنجیدگی سے کہا کہ تم میری تیسری بیوی ہو پہلی اور دوسری بیوی میرا کام ہے۔ میں نے دل ہی دل میں طنزیہ انداز میں کہا: "مبارک ہو!" گویا وہ پہلے ہی دن کہہ رہا تھا کہ تم ایک شہید کی بیوی ہو! وہ کہتے تھے کہ مجھے شہید سمجھو۔ انہوں نے یہ شرط رکھی کہ چونکہ وہ زیادہ تر محاذ پر موجود ہوتے ہیں، اس لیے مجھے ان کے والدین کے ساتھ رہنا ہوگا۔ ہماری شادی کے بعد وہ محاذ پر گئے اور تقریباً 6 ماہ بعد واپس آئے۔
صہیونی حکومت کی جانب سے انعامی رقم کا اعلان
1986 میں سپاہ پاسداران انقلاب نے زنجان سے ایک بریگیڈ طلب کیا۔ اس زمانے میں لبنان اور مقاومت کے بارے میں لوگ زیادہ آگاہی نہیں رکھتے تھے۔ کچھ مدت کے بعد ہم بھی چلے گئے۔ 6 مہینے شام میں رہنے کے بعد لبنان منتقل ہوگئے۔ سید رضی نے 50 کنویں کھودنے کے علاوہ سڑکوں کی تعمیر میں حصہ لیا۔ بیروت اور بعلبک میں امدادی کاموں میں وہ سہولت کار تھے۔ بعلبک کے اطراف میں اکثریت شیعہ آبادی ہے۔ انہوں نے شہداء کے لواحقین اور غریبوں کی مدد کی۔ اس زمانے میں لبنان کی حالت بہت خراب تھی۔ نہ بجلی تھی نہ گیس، ہمارے گھر میں شمع جلاتے تھے۔
سیدہ مہناز کے مطابق صہیونی حکومت نے سید رضی کو شہید کرنے پر انعام کا اعلان کیا تھا۔ کئی سال امریکی پابندی کا شکار رہے۔ کئی مرتبہ ان پر حملہ ہوا۔ دمشق ائیرپورٹ پر حملے میں ان کا پاؤں زخمی ہوگیا تھا۔ ہمیں خبر تک نہ ہوئی۔ ڈاکٹروں نے تین مہینے استراحت کا حکم دیا تھا لیکن جب شہید قاسم سلیمانی کے آنے کی خبر ملی تو بیساکھی کے سہارے ائیرپورٹ گئے۔ انہوں نے کبھی تھکن کا اظہار نہیں کیا۔
حضرت رقیہ کے ضریح کی تعمیر نو میں کردار
شہید سید رضی نے حضرت رقیہ کے نئے ضریح کی تعمیر اور ایران سے شام منتقلی میں اہم کردار ادا کیا۔ ضریح کے قطعات بڑے تھے اور صہیونی حکومت بھی دمشق ائیرپورٹ پر مسلسل حملے کررہی تھی۔ تل ابیب نے ٹرانسپورٹ طیاروں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رکھی تھی اتنے میں سید رضی آگے آئے اور جرائت کے ساتھ ضریح کو شام منتقل کیا۔
سید رضی امام خمینی اور رہبر معظم کے مکتب کے تربیت یافتہ تھے۔ انہوں شہید قاسم سلیمانی کے دست راست کی حیثیت سے کام کیا۔ وہ ہمیشہ شام اور وہاں کے عوام کی فکر میں رہتے تھے۔ شہداء کے گھر والوں کی دیکھ بھال ان کا مشغلہ تھا۔ ان کے لئے رہائش کی فراہمی اور شادی کے لوازمات تیار کرنا ان کا کام تھا۔ وہ صرف شیعہ نہیں بلکہ سنیوں کے لیے خلوص سے کام کرتے تھے۔ شام کے زلزلہ زدگان کی مدد کے وقت انہوں مذہب سے بالاتر ہوکر امدادی کام انجام دیا۔ اگرچہ یہ ان کے وظائف میں شامل نہیں تھا لیکن انہوں نے دل و جان سے انجام دیا۔