غزہ میں فلسطینی عوام پر صہیونی مظالم کے خلاف احتجاج میں مسلمان ممالک کو پہلے اقدام کرنا چاہئے تھا تاہم لاطینی امریکہ کے ممالک اس میں سبقت لے گئے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ کے خلاف صہیونی حکومت کے ظالمانہ حملوں کو ایک سال مکمل ہوگئے ہیں۔ اس دوران صہیونی حکومت کی بربریت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے متعدد ممالک نے غاصب حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کم کیے ہیں۔ اس سلسلے میں لاطینی امریکہ کے ممالک دوسرے خطوں کی نسبت زیادہ سرگرم ہیں۔ اس خطے کے چار ممالک نے صہیونی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کیے ہیں جن میں بولیویا، بلیز، کولمبیا اور نیکاراگوئے شامل ہیں۔

لاطینی امریکہ نے صہیونی حکومت کی غاصبانہ تشکیل کے بعد سے ہی فلسطین کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی وجہ سے صہیونی پالیسی سازوں کی اس خطے پر خصوصی توجہ رہی ہے۔ 1990 کی دہائی میں ارجنٹینا میں صہیونی سفارت خانے پر حملہ ہوا اور خطے میں صہیونی مفادات کو خطرات لاحق ہوگئے۔ 

لاطینی امریکہ کے ممالک نے لبنانی مقاومتی تنظیم حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دینے کے مطالبات کو بھی مسترد کردیا۔ 2009 میں لاطینی امریکہ کے بعض ممالک میں دائیں بازو کے رہنماوں کی شہرت سے صہیونی حکومت کو خطے میں اپنے قدم مزید مضبوط کا موقع ملا۔ 2018 میں نتن یاہو کا لاطینی امریکہ کا سفر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ انہوں نے اپنے سفر کے دوران برازیل، ارجنٹینا، پیراگوئے، کولمبیا، میکسیکو کا سفر کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ہم جنوبی امریکہ کے ساتھ روابط بڑھائیں گے۔ اس خطے میں اہم ممالک موجود ہیں۔ ہم نئے دور میں داخل ہورہے ہیں۔

صہیونی وزیراعظم برازیل کے سابق صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرکے خطے کے ساتھ تعلقات میں اضافے کا اشارہ دیا۔ اس کے باوجود اس خطے کے اکثر ممالک کی جانب سے فلسطین کو خودمختار ملک تسلیم کرنے سے تل ابیب کے ساتھ تعلقات میں بنیادی تبدیلی آئی۔

جنوبی امریکی ممالک کی تنظیم کے وجود میں آنے کے بعد 12 اراکین میں سے 8 نے فلسطین کو تسلیم کیا جو خطے میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی کا واضح اشارہ تھا۔

سابق برازیلی وزیرخارجہ نے اس حوالے سے کہا تھا کہ صہیونی حکومت کی جانب سے امن کے قیام میں رکاوٹ اور یہودی کالونیوں کی تعمیرات روکنے سے انکار کی وجہ سے فلسطین کو تسلیم کیا جارہا ہے۔

غزہ کی جنگ نے لاطینی امریکہ کے بعض ممالک کے سیاسی حالات اور صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات پر بہت زیادہ اثر ڈالا ہے اور علاقے کی کئی حکومتوں نے تل ابیب کے اقدامات پر کڑی تنقید کی ہے۔

غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک چار ممالک جن میں کولمبیا، بولیویا، بیلیز اور نکاراگوئے شامل ہیں، تل ابیب سے تعلقات منقطع کر چکے ہیں، ان تمام کا تعلق لاطینی امریکہ سے ہے۔

میکسیکو کے صدر مینوئل لوپیز نے صہیونی حکومت کے انسانیت سوز جرائم کے خلاف آواز اٹھائی۔ وینزویلا کے صدر مادورو نے تل ابیب کی جانب سے نسل کشی کا معاملہ بھی اٹھایا۔ برازیل، چلی اور کولمبیا نے تل ابیب سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے۔

جنوبی افریقہ کی شکایت اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کی جانب سے صہیونی اہلکاروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے بعد میکسیکو بھی تل ابیب کے خلاف مقدمے میں شامل ہو گیا۔

برازیل اور بالخصوص ارجنٹائن جس میں یہودیوں کی سب سے زیادہ آبادی 200,000 ہے، نے صیہونی حکومت کے فوجی حملوں کی مذمت کی ہے البتہ سفارتی تعلقات منقطع نہیں کئے۔ اس دوران سب سے اہم بات یہ ہے کہ کولمبیا کے صدر گسٹاو پیٹرو نے صیہونی حکومت سے ہتھیاروں کی خریداری معطل کردی ہے۔

یاد رہے کہ صیہونی حکومت کولمبیا کی مسلح افواج کو داخلی بغاوتوں سے نمٹنے کے لیے استعمال ہونے والے آلات کا ایک اہم حصہ فراہم کرتی ہے۔ صیہونی حکومت کے ساتھ لاطینی امریکی ممالک کی رویے کے حوالے سے کئی اہم نکات ہیں:

لاطینی امریکہ ہمیشہ سے مختلف نظریات کا حامل اور مختلف سیاسی میدانوں کا میدان رہا ہے۔ ان ممالک میں اقتدار پر بائیں بازو کے رہنماؤں کی موجودگی مسئلہ فلسطین پر ان ممالک کی پوزیشن پر اثر انداز ہوتی ہے۔

تمام لاطینی امریکی بائیں بازو کی حکومتوں کا اس معاملے پر ایک جیسا موقف نہیں ہے۔ بعض حکومتوں نے فلسطینی کاز کی حمایت اور فلسطینیوں کی خودمختاری اور حق خودارادیت کے دفاع میں مضبوط موقف اختیار کیا ہے اور اسرائیلی حکومت کے قبضے کی مذمت کی ہے۔ وینزویلا، کولمبیا، نکاراگوا اور کیوبا کی حکومتیں اس فہرست میں شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ، کچھ دوسرے رہنما اعتدال پسندانہ رویہ اپناتے ہیں اور اقوام متحدہ کے منصوبوں کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان بات چیت، مذاکرات اور حل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ برازیل اور میکسیکو کے رہنما یہی موقف رکھتے ہیں۔

صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے میں کولمبیا کا اقدام کافی اہمیت کا حامل ہے۔

اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت کے تین ممالک بولیویا، بیلیز اور نکاراگوا کے ساتھ اقتصادی تعلقات 30 ملین ڈالر سے کم ہیں۔ لیکن کولمبیا کے ساتھ اس کے تعلقات مختلف ہیں۔

لاطینی امریکہ کے ساتھ تل ابیب کے تعلقات کے بارے میں مئی 2024 میں بی بی سی کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق 2022 میں مقبوضہ علاقوں کو کولمبیا کی برآمدات ایک ارب 80 ملین ڈالر تھیں اور اس خطے سے درآمدات کی مقدار بھی تقریباً 120 ملین ڈالر تھی۔

سیکورٹی کے معاملے میں دونوں کے درمیان معاہدے موجود ہیں۔ کولمبیا کی فوج کے جوانوں کا ہتھیار صیہونی حکومت کی تیار کردہ گلیل رائفل ہے۔ کولمبیا کی فضائیہ کے پاس صیہونی حکومت کے تقریباً 20 پرانے طیاروں کا سکواڈرن ہے جو ملک کا اہم فضائی یونٹ ہے۔ کولمبیا کی فوج کے پاس موجود سپائیک اور نمرود اینٹی ٹینک میزائل بھی تل ابیب کے ہی بنائے ہوئے ہیں۔

الیکٹرانک ہتھیار، طیارہ شکن نظام، مواصلاتی آلات اور سائبر سیکیورٹی سافٹ ویئر اسرائیل سے کولمبیا کو برآمد کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ صیہونی حکومت پر اس قدر انحصار کے باوجود مئی 2024 میں کولمبیا کے صدر نے صہیونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور فوجی معاہدوں کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا۔

زیادہ تر لاطینی امریکی ممالک کے لیے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا، بین الاقوامی سطح پر نئے اتحادیوں کی تلاش، برآمدی منڈیوں میں تنوع اور امریکہ سے سیاسی آزادی اہمیت اختیار کرچکی ہے۔

برازیل میں داسیلوا اور ارجنٹائن کی سابق صدر کرسٹینا فرنانڈیز کی خارجہ پالیسی میں ان نکات کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ 2001-2010 میں خلیج فارس تعاون کونسل اور مرکوسور کے درمیان تجارتی تبادلے میں تقریباً 330 فیصد اضافہ ہوا۔ جس طرح لاطینی امریکی ممالک کے لیے عربوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات اہم رہے ہیں، اسی طرح موجودہ حالات میں زیادہ تر لاطینی امریکی ممالک کی فلسطین کے لیے حمایتی نقطہ نظر، خاص طور پر غزہ جنگ بندی کے حوالے سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں کی حمایت، عربوں کے لیے اہم ہے۔

نتیجہ

اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ فلسطین کی حمایت اور غزہ میں صیہونی حکومت کے مظالم کے خلاف احتجاج صرف اسلامی ممالک کے لیے مخصوص ہے لیکن لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک نے اس جنگ کے آغاز سے ہی غزہ کے عوام کے خلاف تل ابیب کے جنگی جرائم پر تنقید کی ہے۔

لاطینی امریکی ممالک کا یہ موقف اس وجہ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان ممالک کا خاصا وزن ہے اور ان میں سے بعض ممالک جیسے کولمبیا نے رسمی اقتصادی اور فوجی تعلقات رکھنے کے باوجود تل ابیب سے تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔