امریکی پروفیسر بیکر نے کہا ہے کہ برکس گروپ عالمی طاقتوں کی جانب سے بین الاقوامی اداروں میں بے جا مداخلت کا سلسلہ بند کرسکتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، برکس ایک بین الحکومتی تنظیم ہے جس میں برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ، ایران، مصر، ایتھوپیا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ برکس ایک جیو پولیٹیکل بلاک ہے جس میں شامل حکومتیں 2009 سے باضابطہ سربراہی اجلاسوں میں سالانہ میٹنگ کرتی ہیں اور کثیر جہتی پالیسیوں کو مربوط کرتی ہیں۔

برازیل، روس، بھارت اور چین نے 2009 میں پہلا سربراہی اجلاس منعقد کیا، جس کے ایک سال بعد جنوبی افریقہ اس بلاک میں شامل ہوا۔ ایران، مصر، ایتھوپیا، اور متحدہ عرب امارات نے 1 جنوری 2024 کو تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔ سعودی عرب نے ابھی تک باضابطہ طور پر شمولیت اختیار نہیں کی ہے، لیکن ایک مدعو ملک کے طور پر تنظیم کی سرگرمیوں میں حصہ لے رہا ہے۔ حال ہی میں دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ترکی نے مبینہ طور پر اس بلاک میں شامل ہونے کی درخواست جمع کرائی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ برکس کی عالمی سطح پر حیثیت اور اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس بلاک کی بین الاقوامی سطح پر حیثیت اور اہم معاملات میں کردار کے بارے میں جاننے کے لئے ہم نے امریکی پین اسٹیٹ یونیورسٹی میں قانون اور بین الاقوامی امور کے پروفیسر لیری کاٹا بیکر سے رابطہ کیا۔ وہ امریکن لاء انسٹی ٹیوٹ اور یورپی کارپوریٹ گورننس انسٹی ٹیوٹ کے رکن بھی ہیں۔

ترکی جیسے نیٹو کے رکن ملک اور افریقی ریاستوں کی جانب سے برکس میں شمولیت کی درخواستوں کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر بیکر نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ عالمی سطح پر کم طاقتور ریاستوں میں ایک عمومی رجحان ہے کہ وہ برکس جیسی تنظیموں میں شامل ہو جائیں جہاں یا تو وہ آپس میں اجتماعی فعالیت کرسکیں یا جہاں وہ خود کو کسی بڑی طاقت کے ساتھ جوڑسکیں۔ ان تنظیموں میں شامل ہونے کے فوائد اقتصادی اور دفاعی ہوتے ہیں۔ قومی ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھانے یا یکجہتی پیدا کرنے کے لیے یہ پلیٹ فارمز موثر ثابت ہوتے ہیں۔ عالمی ممالک سیاسی فوائد اور نتائج مطابق بین الاقوامی تنظیموں میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ برکس گروپ عالمی ممالک کو ایک بین حکومتی پلیٹ فارم پیش کرتا ہے تاکہ اپنے مفادات کے مطابق مشترکہ جدوجہد کرسکیں۔ برکس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم پر وہ ممالک جمع ہیں جو نظریاتی طور پر ہماہنگ ہیں۔ اس کے رکن ممالک ایک دوسرے سے اختلافات کے باوجود مشترکہ مفادات کے لئے باہم اقدامات کرتے ہیں جس کی واضح ترین مثال چین اور بھارت ہیں جو ایک بعض امور پر ایک دوسرے کے حریف ہیں لیکن برکس کے پلیٹ فارم پر جمع ہوتے ہیں۔

پروفیسر بیکر نے کہا کہ برکس ایک بہت مفید تنظیم ہے جس کے اندر یہ ممالک انفرادی اور اجتماعی طور پر فائدہ مند اسٹریٹجک مقاصد کو ایک ادارے کے رہتے ہوئے آگے بڑھاسکتے ہیں۔ برکس گروپ ایک بین حکومتی ادارہ جاتی فریم ورک فراہم کرتا ہے جو ان ریاستوں کے لیے موزوں ہے جنہیں وقتاً فوقتاً خود کو تقویت دینے کے لئے طاقت کے استعمال کی طرف محتاج ہیں۔ برکس گروپ اپنے اراکین کو کسی بھی فرد اور ریاست کے ساتھ اپنے انفرادی اسٹریٹجک تعلقات کو آگے بڑھانے کی وسیع آزادی کی اجازت دیتا ہے جسے وہ اپنے لیے کارآمد سمجھتے ہیں۔ ترکی اور سعودی عرب کو برکس کو ایک مفید موقع مل سکتا ہے جہاں سے وہ اپنے روایتی شراکت داروں اور نئے شراکت داروں کے ساتھ بہتر گفت و شنید کر سکتے ہیں۔ ان دونوں ممالک کو خطے میں اپنے روایتی کردار کو برقرار رکھنے کے لیے درپیش انتہائی مشکل چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

افریقی ریاستیں اس تنظیم کو ایک طرف افریقی یونین کے اندر فائدہ اٹھانے کے طور پر کارآمد سمجھتی ہیں اور دوسری طرف وہ اپنے قدرتی وسائل کے استعمال اور عالمی منڈیوں تک رسائی پر بات چیت کرنا چاہتی ہیں۔

برکس کے مستقبل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ برکس گروپ اپنے اراکین کے لیے سہولت کا سامان فراہم کرے گا۔ برکس کی سب سے بڑی اہمیت اس کی سیاسی حیثیت ہے۔ چین، برازیل، بھارت اور روس میں سے ہر ایک سیاسی اور اقتصادی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ برکس گروپ اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی اداروں میں اسٹریٹجک مداخلتوں کو منظم اور قانون کے پابند بنانے کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بن سکتا ہے۔ کے طور پر کام کر سکتا ہے۔