مہر خبررساں ایجنسی نے المنار کے حوالے سے کہا ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے عاشورا کے دن اپنے خطاب میں کہا ہے کہ عاشورا کے دن سب سے پہلے غزہ کا بحران یاد آتا ہے۔ حزب اللہ اسرائیل کے مظالم کے سامنے خاموش نہیں بیٹھے گی چنانچہ حضرت امام حسینؑ نے یہی درس دیا ہے۔
انہوں نے عرب ممالک کی خاموشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ سات اکتوبر سے ہی جنگ میں داخل ہوچکی ہے۔ ہم غزہ کے حامی ہیں چنانچہ اسلامی جمہوری ایران اور شام اس مسئلے پر ہمارے حامی ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے کہا کہ غزہ کے فلسطینی مسلمان 20 سالوں سے صہیونی محاصرے میں ہیں اور یہودی آبادکاری مسلسل جاری ہے۔ مقاومتی محاذ متحد ہوکر صہیونی مظالم کا مقابلہ کرے گی۔ حق بالاخر باطل پر فتح یاب ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت بری طرح بحران میں پھنس گئی ہے۔ غزہ میں اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کے بعد نہتے فلسطینیوں پر ظلم کے ذریعے اپنی ناکامی پر پردہ ڈال رہی ہے۔
انہوں نے بحیرہ احمر میں انصاراللہ کی کاروائیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ صہیونی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ ایلات کی بندرگاہ مکمل معطل ہوگئی ہے۔ انصاراللہ کی کاروائیوں سے مقبوضہ فلسطین میں مہنگائی کا طوفان آیا ہے اور اسرائیل اقتصادی بحران کا شکار ہوگیا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ نے کہا کہ صہیونی ادارے اور حکام مقاومت کے حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کا اعتراف کررہے ہیں تاہم آزاد ذرائع کے مطابق اصل اعداد و شمار اس سے تین گنا زیادہ ہے۔ آج اسرائیل کو انسانی وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ غزہ میں بڑی تعداد میں ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کو تباہ کیا گیا ہے۔ ان حالات میں شمالی سرحدوں پر محاذ کھولنے کا کسی بھی لحاظ سے متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیلی ٹینک لبنان میں داخل ہوجائیں تو کوئی ٹینک واپس نہیں جائے گا۔ جنگ کا دائرہ بڑھانے کی دھمکیاں ہمیں مرعوب نہیں کرسکتی ہیں۔ جب تک غزہ پر صہیونی جارحیت جاری ہے ہم غزہ کی حمایت کریں گے۔