مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: غزہ میں صہیونی حکومت نے گذشتہ نو مہینوں سے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ غزہ میں مظلوم فلسطینیوں مخصوصا بے گناہ خواتین اور معصوم بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات سے سنہ 61 ہجری میں کربلا کا واقعہ یاد آتا ہے۔ طوفان الاقصی کے بعد پیش آنے والے واقعات اور نتن یاہو کے مظالم کو یزیدی لشکر کی جانب سے کربلا میں ڈھائے جانے والے مظالم سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
دس محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو یزید بن معاویہ کے خلاف قیام کی وجہ سے حضرت امام حسینؑ اور ان کے اصحاب کو صحرائے کربلا میں بھوکا پیاسا شہید کیا گیا۔ امام عالی مقام کی شہادت کے سیاسی، ثقافتی اور اجتماعی پہلو ہیں۔ اس معرکے میں ظلم اور عدل، ظالم اور مظلوم اور حق و باطل ایک دوسرے کے سامنے آئے۔ حضرت امام حسینؑ اور ان کے اصحاب نے انتہائی مظلومیت کے عالم میں ظالم یزیدی لشکر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کیا اور مظلومیت کے عالم میں موت کو گلے لگایا۔
غزہ میں گذشتہ نو مہینوں کے دوران پیش آنے والے واقعات اور خونخوار نتن یاہو کے مظالم واقعہ کربلا میں ہونے والے مظالم بہت حد تک شبیہ ہیں۔
اسلام میں جہاد کو بہت فضیلت حاصل ہے۔ شہادت طلبی کا واقعہ کربلا سے چولی دامن کا ساتھ ہے اسی لئے حسین شہید یا سید الشہداء جیسے القاب سالار شہیدان کربلا سے مخصوص ہیں۔ غزہ کی جنگ میں حماس کے مجاہدین نے جذبہ شہادت طلبی کے ساتھ صہیونی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ شہادت ایسا تفکر ہے جو مسلمانوں کے اندر پایا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے مسلمان دشمن کے سامنے خوف و ہراس کا شکار ہونے کے بجائے خوداعتمادی کے ساتھ سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔ غزہ میں صہیونی فورسز کے خلاف ہونے والے کامیاب حملوں کی ایک بڑی وجہ مجاہدین کا جذبہ شہادت اور شہادت طلبی ہے۔ جس طرح میدان کربلا میں شہداء کربلا نے یزیدی لشکر کی تعداد اور جدید ہتھیار سے مرعوب ہونے کے بجائے شوق شہادت میں آخری دم تک مقابلہ کیا اسی طرح غزہ کے مجاہدین اپنے سے کئی گنا زیادہ طاقتور دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے سینہ سپر ہوکر مقابلہ کررہے ہیں۔
غزہ کی جنگ کے بارے میں واشنگٹن میں قائم امریکی تحقیقی ادارے نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ حماس نے غزہ کی جنگ میں ثابت کیا کہ میدان جنگ میں شہادت طلبی اور شوق شہادت سے جنگ کا نقشہ بدل جاتا ہے اور جنگ کا نتیجہ اسی فریق کے حق میں آتا ہے بنابراین غزہ کی جنگ میں حماس کے مجاہدین کو اسرائیلی فورسز پر برتری حاصل ہے۔
طوفان الاقصی قیام امام حسینؑ کے آئینے میں
حضرت امام حسینؑ کے قیام کا کسی بھی واقعے سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس قیام کو ہم کما حقہ درک نہیں کرسکتے ہیں۔ البتہ طوفان الاقصی میں قیام امام حسینؑ کے ساتھ کچھ شباہتیں موجود ہیں۔ چنانچہ تاریخی کتابوں میں منقول ہے کہ سید الشہداء کے قیام کا مقصد بنی امیہ کے اصلی چہرے کو سامنے لانا، بدعتوں کا مقابلہ اور حق پر عمل کرنے کے لئے باطل سے مقابلہ کرنا تھا چنانچہ امام حسینؑ فرماتے ہیں کہ اگر امت مسلمہ کی باگ ڈور یزید جیسے شخص کے ہاتھ میں آجائے تو اسلام کا اللہ ہی حافظ ہے یعنی امام کا مطلب یہ ہے کہ یزید جیسے حاکم کی موجودگی میں دین خدا کی بقاء کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔
کربلا کے راستے میں امام حسینؑ کے فرمودات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کے قیام کا ہدف خاندان بنی امیہ کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا۔ امامؑ نے بصرہ کے سرداروں کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ اس گروہ (بنی امیہ) نے دین میں بدعتیں ایجاد کی ہیں۔ معاویہ نے اپنے مفادات کی خاطر بدعتیں ایجاد کی تھیں جن میں سے سرفہرست خلافت کو ملوکیت میں بدلنا تھا۔ کربلا کے میدان میں امام حسینؑ نے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایا: کیا نہیں دیکھتے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہورہا ہے اور باطل سے نہیں روکا جارہا ہے۔ ان حالات میں مومن کو اللہ سے ملاقات کی تمنا کرنا چاہئے۔ ان جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام اپنے اہداف کے حصول میں شہادت تک کو قبول کرنا کے لئے تیار تھے۔ گویا امام کے قیام کا مقصد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد اسلامی معاشرے میں پیدا ہونے والی بدعتوں کو ختم کرنا تھا۔
حماس نے 7 اکتوبر کو طوفان الاقصی آپریشن کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ یہ مقابلہ آج نہیں بلکہ 105 سال پہلے سے جاری ہے جب فرانس اور برطانیہ کے درمیان 1918 میں عرب ممالک پر قبضے کے لئے اتفاق ہوا۔ گذشتہ 17 سالوں سے فلسطینیوں کو محاصرہ میں لے کر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور اس دوران 11 ہزار فلسطینی شہید ہوگئے۔ صہیونی حکومت نے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو پامال کیا اور فلسطینیوں کی زمینوں اور مکانات پر قبضہ کرتے ہوئے یہودی کالونیاں تعمیر کیں۔ صہیونی حکومت کا رویہ اسلامی ملک فلسطین کے بارے میں روز بروز خطرناک اور ناقابل قبول ہورہا تھا۔ اس لئے یہ آپریشن ناگزیر تھا۔ واقعہ کربلا اور طوفان الاقصی کا مشترکہ ہدف اسلامی معاشرے اور مملکت کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنا تھا۔
صہیونی فوج اور لشکر عمر سعد میں شباہتیں
تاریخی منابع کے مطابق کربلا میں عمر ابن سعد کی سربراہی میں 4 ہزار کا لشکر جمع ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کے ساتھ مزید لشکر ملنے لگے اور عاشورا کے دن 30 سے 40 ہزار کا لشکر جمع ہوا۔ حضرت امام حسینؑ کے اصحاب اور یاوران کی تعداد کے بارے میں مختلف اعداد و شمار بیان ہوئے ہیں۔ شیخ مفید کے مطابق امام کا لشکر 72 افراد پر مشتمل تھا جس میں سے 32 سوار اور 40 پیدل تھے۔ اس طرح اگر دونوں لشکروں کا موازنہ کیا جائے تو ایک کا مقابلہ 416 سپاہیوں سے تھا۔
گلوبل فائر پاور کی رپورٹ کے مطابق صہیونی فوج کی آرمی، بحریہ اور فضائیہ کے اہلکاروں کی مجموعی تعداد تقریبا 6 لاکھ 34 ہزار ہے اس کے مقابلے میں حماس کے مجاہدین کی تعداد 35 سے 40 ہزار بتائی جاتی ہے۔ نتیجتا طوفان الاقصی میں حماس کے ایک مجاہد کے مقابلے میں 18 صہیونی فوجی ہیں۔
نتن یاہو یزید کے روپ میں
معرکہ کربلا میں یزید ظلم و ستم کا عملی نمونہ تھا۔ موجودہ زمانے میں استکباری طاقتوں کے سربراہان زمانے کے یزید ہیں۔ یزید نے اپنی مختصر خلافت کے ایام میں انسانیت سوز جرائم کئے جن میں فرزند رسول امام حسینؑ کی شہادت، خانہ خدا کو نذر آتش کرنا اور مدینہ میں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کرنے کے بعد خواتین کی عصمت دری کرنا شامل ہیں۔ نتن یاہو نے غزہ میں یہی واقعات دہرائے ہیں۔ معصوم اور بے گناہوں کا قتل عام کیا۔ متعدد مساجد اور عبادتگاہوں کو تباہ کردیا اور خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ فلسطینی کیمپوں میں صہیونی فورسز کے مظالم واقعہ کربلا میں ہونے والے مظالم سے شباہت رکھتے ہیں۔
فلسطینی معصوم بچوں کا قتل عام
جس طرح واقعہ کربلا میں چھے مہینے کے علی اصغرؑ کو بھوکا پیاسا شہید کیا گیا۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر سے اب تک غزہ میں صہیونی فوج کے ہاتھوں 15 ہزار معصوم فلسطینی بچے شہید ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انروا کے امدادی شعبے کے سربراہ فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ غزہ میں قتل ہونے والے بچوں کی تعداد گذشتہ چار سالوں کے دوران پوری دنیا میں قتل ہونے والے لوگوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ جس طرح کربلا میں معصوم بچوں کو بھوکا پیاسا رکھا گیا اسی طرح نتن یاہو کی فوج نے غزہ میں فلسطینیوں امدادی سامان کا راستہ بند کرکے معصوم بچوں کو ایک ایک بوند پانی کے لئے ترسا دیا۔
غزہ کی مائیں حضرت رباب کے روپ میں
تاریخ میں ہے کہ جب ملعون حرملہ کو جناب مختار کے پاس لایا گیا تو سوال کیا گیا کہ اے حرملہ! کیا کربلا میں امام حسینؑ کی حالت پر تجھے ترس نہیں آیا؟ اس نے جواب دیا: ہاں اس وقت ترس آیا جب علی اصغرؑ کی شہادت کے بعد حسینؑ نے علی اصغرؑ کی لاش کو عبا کے نیچے چھپا کر خیموں کی طرف لے گیا تو ایک نقاب پوش خاتون خیمے کے اندر دروازے کے ساتھ کھڑی تھی گویا علی اصغرؑ کی ماں تھی۔ جیسے ہی حسینؑ کی نگاہ اس خاتون پر پڑی تو واپس پلٹے اور کچھ لمحہ ٹھہر گئے اس کے بعد دوبارہ خیمے کی طرف گئے۔ دوبارہ واپس آئے۔ حسینؑ نے تین مرتبہ ایسا کیا۔ مختار نے پوچھا: اس کے بعد کیا ہوا؟ حرملہ بولا بالاخر حسینؑ سواری سے اتر گئے اور ننھی سی قبر کھود کر علی اصغرؑ کو اس میں دفن کردیا۔
غزہ کی ماؤں کے ساتھ بھی اسی طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ماؤں کے سامنے ان کے شیرخوار بچے قتل اور ذبح ہورہے ہیں۔ مائیں بچوں کی لاشوں کو گلے سے لگاکر دنیا کو اپنی بے کسی اور اپنے بچوں کی مظلومیت کی داستانیں سنارہی ہیں۔ فلسطین میں اقوام متحدہ کے ادارے انروا کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد روزانہ 37 فلسطینی بچے اپنی ماؤں سے محروم ہورہے ہیں۔ 1 لاکھ 55 ہزار سے زائد حاملہ خواتین کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ بڑی تعداد میں مائیں اپنے بچوں کے ساتھ عمارتوں کے ملبے تلے دفن ہوگئی ہیں جن کے بارے میں دنیا کو اب تک کوئی خبر نہیں ہے۔
غزہ میں گذشتہ نو مہینوں سے پیش آنے والے واقعات سنہ 61 ہجری کے واقعات سے بہت شباہت رکھتے ہیں گویا غزہ میں عصر حاضر کا عاشورا وقوع پذیر ہورہا ہے۔ صہیونی فوج نتن یاہو کی سربراہی میں لشکر یزید کا کردار ادا کررہی ہے۔ غزہ کی مائیں اپنے پھول جیسے بچوں پر ہونے والے مظالم برداشت کرتے ہوئے کربلا کی خواتین کا کردار ادا کررہی ہیں۔