مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو 1957 میں ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کو فروغ دینے اور فوجی استعمال کو روکنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایجنسی ایک آزاد اور خود مختار ادارے کے طور پر قائم کی گئی تھی۔ عالمی ایجنسی اقوام متحدہ یا کسی دوسرے ادارے کا حصہ نہیں ہے، تاہم اپنی رپورٹس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کو باقاعدگی سے پیش کرتی ہے۔
تنظیم کا صدر دفتر آسٹریا کے شہر ویانا میں ہے اور اب تک 175 ممالک اس تنظیم کے رکن بن چکے ہیں۔ اس بین الاقوامی ادارے کے آئین کے ایک حصے میں کہا گیا ہے کہ یہ ادارہ پوری دنیا کے امن اور خوشحالی کے لیے جوہری توانائی کے تعاون کو تیز اور ترقی دینے کے ساتھ اپنی توانائی کے مطابق جوہری ہتھیاروں کو فوجی مقاصد کے لئے استعمال کو ہر حال میں روکنے کی کوشش کرے گا۔
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کے بعد امریکہ نے خود کو یکطرفہ طور پر معاہدے سے الگ کیا تھا۔ امریکی اعلان کے بعد عالمی ادارے نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے امریکی آلہ کار کا کردار ادا کیا ہے۔ غیر جانبدار بنیادوں پر تشکیل پانے والا ادارہ مغربی ممالک کی جانب سے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونے لگا ہے جس کے نتیجے میں بین الاقوامی سطح پر ادارے کی شہرت کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کا مختلف ممالک کے ساتھ رویہ بھی دوغلا پن پر مشتمل ہے۔ اسرائیل مشرق وسطی میں واحد جوہری طاقت ہے جس نے کئی مرتبہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے کی سرعام دھمکی دی ہے لیکن ایجنسی نے تاحال صہیونی حکومت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ہے۔ ادارے کی دوغلی پالیسی کے باعث ایران اور ادارے کے درمیان تعاون کا سلسلہ بھی مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔
16 جون کو عالمی ایجنسی نے غیر تعمیری اور سیاسی کاروائی کرتے ہوئے تین یورپی ممالک کی قرارداد پاس کرلی۔ روس اور چین سمیت کئی ممالک نے قرارداد کی مخالفت کی۔ قرارداد کو ماضی کی نسبت کم ووٹ ملے۔ اس سے پہلے بین الاقوامی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز نے نومبر 2022 میں 26 ممالک کی حمایت سے ایران کے خلاف ایک اور قرارداد کی منظوری دی تھی۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس قرارداد کے جواب میں فردو ایٹمی پلانٹ میں 60 فیصد افزودگی شروع کر دی تھی۔
اگرچہ ایجنسی کی قراردادیں قانونی طور پر لازم العمل نہیں ہیں تاہم بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس ایران مخالف قرارداد کی منظوری سے قبل آٹھ ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ این پی ٹی سیف گارڈ معاہدے کے ایجنڈے کے تحت یکجہتی کا اعلان کیا تھا۔ ان ممالک میں بیلاروس، چین، ایران، نکاراگوا، روس، شام، زمبابوے اور وینزویلا شامل ہیں۔
مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم این پی ٹی معاہدے کے ایک فریق کی حیثیت سے جوہری پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایران کے دیرینہ عزم کی قدر کرتے ہیں۔ ہم جوہری معاملات پر ایران اور عالمی ایجنسی کے درمیان تعاون کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ڈائریکٹر جنرل رفائیل گروسی کے گزشتہ ماہ ایران کے دورے اور باہمی تعاون کو سراہتے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ عالمی ایجنسی کے سربراہ کے دورہ ایران کے دوران فریقین نے مزید تعاون پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے مارچ 2023 کے مشترکہ بیان پر عمل درآمد جاری رکھنے پر اتفاق کیا تھا۔ ایسے وقت میں فرانس، جرمنی اور انگلینڈ کی جانب سے منفی قرارداد سے برعکس نتیجہ برامد ہوسکتا ہے۔
دراین اثناء ویانا میں روس کے سفیر اور مستقل نمائندے میخائل الیانوف نے یورپی ٹرائیکا کی قرارداد کو غیر معقول قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا اور اس سے ایران کا ایٹمی پروگرام مزید گھمبیر ہوجائے گا۔
عالمی ایجنسی میں ایران کے نمائندے نے کہا ہے کہ امریکی کی طرف سے خود کو معاہدے سے الگ کرنے کے بعد ایران کے اقدامات جوہری معاہدے کی روح کے عین مطابق ہیں۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی روشنی میں ہر تین ماہ بعد رفایل گروسی ایران کی جوہری سرگرمیوں کی تصدیق، معائنے اور کونسل آف گورنرز کے تحفظات پر عمل درآمد کی رپورٹ پیش کرتا ہے۔
اپنی تازہ ترین رپورٹ میں ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے بارے میں سیاسی الزامات کو دہراتے ہوئے انہوں نے دعوی کیا ہے کہ ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخائر جوہری معاہدے میں اجازت دی گئی حد سے 30 گنا تک پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ ایران کے ساتھ تنازعات ابھی تک حل نہیں ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں الزامات کی بنیاد صیہونی حکومت کی جعلی دستاویزات ہیں جو کہ ایران کے جوہری پروگرام کو غیر محفوظ ثابت کرنے کے مقصد سے میڈیا اور ایجنسی کے اہلکاروں کو فراہم کی گئی تھیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے مارچ 2022 میں رفایل گروسی کے تہران کے دو روزہ سفر کے دوران ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے پیشکش کی تھی کہ عالمی ادارے کے معاینہ کار ایرانی پارلیمنٹ کی قرارداد کے تحت جوہری تنصیبات کا معاینہ کرسکتے ہیں جو بعد میں 4 مارچ کے مشترکہ بیان کے نام سے مشہور ہوا۔
اس معاہدے کے بعد ماہرین کی سطح پر ملاقاتیں ہوئیں اور ایران اور ایجنسی کے درمیان متعدد تکنیکی مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے گئے۔ گزشتہ ماہ اپنے ایران کے دورے کے دوران گروسی نے ایرانی حکام سے 4 مارچ کے بیان پر عمل درآمد جاری رکھنے کے بارے میں مشاورت کی اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایرانی حکام اور بین الاقوامی اداروں کے درمیان مذاکرات شروع کیے جائیں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ ایران کے صدارتی انتخابات کے موقع پر یورپی ٹرائیکا کی جانب سے کونسل آف گورنرز میں ایران مخالف قرارداد پیش کرنے کا ہدف سیاسی مقاصد حاصل کرنا اور ملک کے پرامن ماحول میں رخنہ ڈالنا ہے۔
دوسری جانب صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں گروسی نے کونسل کے اجلاس میں ایران کے خلاف قرارداد کی حمایت یا مخالفت کئے بغیر کہا کہ وہ 4 مارچ کے معاہدے کو آگے بڑھانے کے لئے ایران کے ساتھ بات چیت جاری رکھیں گے۔
ایسی صورت حال میں جب ایجنسی کے ساتھ ایران کے تعاون میں سیاسی اقدامات کے ذریعے رکاوٹ ڈالی گئی ہے، گروسی توقع کرتے ہیں کہ مخصوص جوہری تنصیبات تک اضافی سیکورٹی کی اجازت دی جائے گی جوکہ ایرانی پارلیمنٹ کی قرارداد کی روح کے منافی ہے۔
اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران نے نیک نیتی کےساتھ اور رضاکارانہ طور پر ایجنسی کو دو مقامات تک رسائی دی اور ان کے بارے میں ڈیٹا، معلومات اور وضاحتیں بھی ایجنسی کو فراہم کردیں تاہم ایجنسی نے مخصوص مقاصد کے تحت ایران کی درست وضاحتوں پر توجہ نہیں دی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک نے امریکہ کے دباو میں آکر عالمی ادارے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد صہیونی حکومت کی غزہ میں جاری جارحیت اور امریکی حمایت سے عالمی برادری کی توجہ ہٹانا ہے۔ عالمی ادارے کے اس اقدام کے بعد ایران کی طرف سے ردعمل ضرور آئے گا۔