مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ 15 مئی 1948 فلسطین اور عالم اسلام کے لئے یوم سانحہ ہے جس دن مغرب کی حمایت کے تحت منحوس اور جعلی صہیونی حکومت تشکیل دی گئی۔ مسلمان اس دن کو "یوم النکبہ" سے یاد کرتے ہیں۔
اس دن کے بعد 80 فیصد فلسطینی سرزمین پر صہیونیوں نے قبضہ کیا اور قتل عام کے بعد 70 فیصد فلسطینی بے گھر ہوکر مہاجرت پر مجبور ہوئے۔ یوم النکبہ کے بعد ابتدائی سالوں میں کم از کم 15 ہزار فلسطینی شہید اور ساڑھے سات لاکھ فلسطینی اپنے ملک سے بے دخل کئے گئے جوکہ اس زمانے میں فلسطین کی آدھی آبادی کے برابر تھا۔
جعلی صہیونی حکومت قائم ہونے کے بعد 1948 سے 1950 تک 530 سے زائد فلسطینی شہروں اور قصبوں کو تباہ کیا گیا۔ ان شہروں اور قصبوں کو تباہ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ فلسطینیوں کے گھر بار کی طرف لوٹنے کا امکان ختم کیا جائے۔ کئی ملین فلسطینی عرب ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے جبکہ لاکھوں فلسطینیوں نے غیر مسلم ممالک کا رخ کیا۔
گذشتہ 76 سالوں کے دوران صہیونی حکومت کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ کبھی نہیں رکا۔ دیریاسین، کفر قاسم، صابرا اور شتیلا میں فلسطینیوں کا اجتماعی قتل عام صہیونی حکومت کے ان سیاہ کارناموں میں سے ہیں جو عالمی سطح پر مشہور ہیں اور صہیونی حکومت کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں۔
گذشتہ 76 سالوں کے دوران ایک لاکھ پچاس ہزار فلسطینی اسرائیل فورسز کی براہ راست فائرنگ سے شہید ہوگئے ہیں۔ حالیہ جنگ غزہ کے دوران اب تک کی اطلاعات کے مطابق 35 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔
طوفان الاقصی آپریشن اور صہیونی حکومت تباہی کے دہانے پر
طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت کی سب سے بڑی شکست صہیونیوں کی آبائی ممالک کی طرف واپسی ہے۔ 1948 کے بعد صہیونی حکومت نے دنیا کے مختلف کونوں سے یہودیوں کو اسرائیل لاکر آباد کیا ہے جس کے لئے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا۔ طوفان الاقصی کے بعد واضح ہوگیا کہ یہودی مقبوضہ علاقوں میں قیام کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ جو پہلے سے مقیم ہیں وہ بھی اسرائیل سے باہر نکلنے کا موقع تلاش کررہے ہیں۔
فلسطینی مقاومت کے حملوں سے پہلے ہی نتن یاہو کی حکومت کو درپیش اقتصادی اور سیاسی مشکلات کی وجہ سے صہیونی مشکلات کا شکار تھے۔ طوفان الاقصی کے بعد مقبوضہ علاقوں سے تقریبا 80 ہزار صہیونی اپنے آبائی ممالک کی طرف واپس چلے گئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق صہیونی حکومت کو شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔ ڈھائی لاکھ صہیونی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ سیاحت کا شعبہ بحران سے دوچار ہے۔ 73 فیصد سیاحت ختم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی میں قابل قدر کمی واقع ہوئی ہے۔
جنگ غزہ کی وجہ سے صہیونی حکومت کو افراط زر، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ، اسٹاک مارکیٹ میں مندی اور کرنسی کی قدر میں گراوٹ جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار فرار کررہے ہیں۔
صہیونی حکومت کی اقتصادی مشکلات کی ایک بڑی وجہ یمنی فوج کے حملے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق بحیرہ احمر پر یمنی فوج کے حملوں کی وجہ سے صہیونی بندرگاہوں پر آنے کے لئے کشتیوں کو 13 ہزار کلومیٹر طویل مسافت طے کرنا پڑتا ہے جس سے اخراجات بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سفری اخراجات میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یمنی فوج کی جانب سے حملے جاری رہنے کی صورت میں صہیونی حکومت کے اقتصادی نقصانات میں مزید اضافہ ہوگا۔
مشکل حالات میں مقاومتی تنظیموں کے حملوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اس وجہ سے صہیونی آبادکار مقبوضہ علاقوں میں مزید قیام کے لئے تیار نہیں ہیں۔
حاصل سخن
گذشتہ سالوں کی نسبت رواں سال "یوم النکبہ" مختلف ماحول میں منایا جارہا ہے۔ صہیونی حکومت مختلف بحرانوں کا شکار ہوکر سقوط کے دہانے پہنچ گئی ہے۔ مبصرین نتن یاہو کی کابینہ اور حکومت سے بالاتر ہوکر اسرائیل کے سقوط کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔
خطے کی مقاومتی تنظیمیں عراق، شام، لبنان، یمن اور فلسطین سے صہیونی حکومت پر حملے کررہی ہیں جس سے صہیونی حکومت شدید مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر صہیونی دہشت گرد حملے کے بعد ایران کی جانب سے "وعدہ صادق" آپریشن نے بخوبی ثابت کردیا ہے کہ صہیونی حکومت انتہائی کمزور اور آخری سانسیں لے رہی ہے۔
طوفان الاقصی میں صہیونی حکومت کی انٹیلی جنس اور سیکورٹی ناکامی آشکار ہونے کے بعد نتن یاہو اور ان کی کابینہ غزہ پر انسانیت سوز جرائم کے باوجود حماس کو ختم کرنے اور صہیونی یرغمالیوں کو رہا کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئے ہیں۔ ایران کی طرف سے جوابی حملے اور صہیونی حکومت کی بے بسی نے زوال پذیر اسرائیل کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔
اس وقت صہیونی حکومت غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی اور بے پناہ مظالم کی وجہ سے عالمی سطح پر شدید تنقید کا شکار ہے۔ عالمی عدالت کی جانب سے صہیونی حکومت کو جرائم میں ملوث قرار دینا اور اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ پڑنا دلیل ہے کہ صہیونی حکومت کو "نہ پائے رفتن، نہ جائے ماندن" کی صورتحال درپیش ہے۔