بحیرہ احمر کو ملٹرائزڈ کرنے کے امریکی اہداف تل ابیب کی حمایت کے معاملے سے بھی آگے ہیں، وہ یہ کہ واشنگٹن حریف طاقتوں کے مقابلے میں اس اسٹریٹجک آبنائے کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی نے المیادین نیوز سائٹ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ گذشتہ اکتوبر کی 7 تاریخ کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد صیہونی حکومت نے غزہ کے شہریوں اور بے گناہ لوگوں پر وحشیانہ حملے شروع کردیئے جو اب تک جاری ہیں۔ ایسے میں یمنی عوامی فورسز نے فلسطینی قوم کے ساتھ اپنی موجودگی کا اعلان کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطین کے جنوبی علاقوں پر میزائل اور ڈرون حملے کئے۔ اور 19 نومبر کو صہیونی بحری جہاز "Galaxy Leader" کو قبضے میں لیتے ہوئے وارننگ دی کہ کسی بھی قومیت کے غیر ملکی بحری جہاز اگر مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں کی طرف بڑھے تو ان پر حملہ کیا جائے گا۔

یمن کی عوامی حکومت کی باب المندب اور بحیرہ احمر میں تزویراتی مساوات نے صیہونی رجیم کا بحری محاصرہ ممکن بنا دیا البتہ یمنیوں نے اعلان کیا کہ مقبوضہ فلسطین کو جانے والےبحری جہازوں کے علاوہ دیگر جہاز آزادانہ طور پر سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں عسکری امور کے ماہر عبدالغنی الزبیدی نے المیادین ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یمن غزہ کی مدد کے لیے اپنا جائز حق استعمال کر رہا ہے لیکن اس معاملے نے واشنگٹن کو اشتعال دلایا ہے۔ کیونکہ وہ بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب کو خطے کے ممالک پر اپنا تسلط قائم رکھنے یا حریف طاقتوں کے مقابلے میں اپنی جیوسٹریٹیجک پوزیشن کی برتری کے لئے استعما کرنا چاہتا ہے۔ لیکن یمن امریکہ اور صیہونی رجیم پر دباو بڑھانے کے لئے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کرے گا۔

تاہم واشنگٹن نے بحیرہ احمر کو عسکری محاذ آرائی میں دھکیل کر شپنگ کمپنیوں اور عالمی تجارت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کے لئے بحری اتحاد

اس رپورٹ میں بحیرہ احمر میں تل ابیب کے مفادات کی حمایت کے لیے امریکہ اور صیہونی حکومت کی کوششوں کی طرف مزید اشارہ کیا گیا ہے اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ واشنگٹن نے 18 دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ " خوشحالی کے محافظ" کے نام سے 20 حکومتوں پر مشتمل ایک بحری اتحاد تشکیل دیا جائے گا جو یمنی افواج کا مقابلہ کرنے کے لئے آپریشنز کرے گا۔

اس اتحاد میں دلچسپ بات یہ تھی کہ بحرین کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر عرب حکومتوں نے اس اتحاد میں حصہ نہیں لیا تھا۔بحرین کو بھی اس اتحاد میں شرکت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ بحرین امریکہ کے پانچویں بحری بیڑے کا مرکزی اڈہ ہے لیکن ساتھ ہی اس نے اپنے کردار کو صرف لاجسٹک سپورٹ تک محدود رکھنے کی حامی بھری ہے۔

لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور امریکہ کے نامزد کردہ بہت سے ممالک بشمول برطانیہ اور یونان اور کچھ دوسری حکومتوں نے اعلان کیا کہ وہ اس اتحاد میں براہ راست شرکت نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے نیویارک ٹائمز اخبار نے لکھا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے لیے امریکا کی حمایت کے تناظر میں ایسا نہیں لگتا کہ خطے کی حکومتیں اس فوجی مہم جوئی کے حوالے سے امریکا کا ساتھ دینے کی خواہش رکھتی ہوں۔

بحیرہ احمر میں عسکریت پسندی کے امریکی مقاصد

امریکہ نے گارڈین آف ہیپی نیس اتحاد کے قیام کے اعلان کے بعد بحیرہ احمر میں اپنی جارحیت بڑھا دی اور اتوار کو یمنی بحریہ کی کشتیوں پر حملہ کیا جس میں تین کشتیاں ڈوب گئیں اور متعدد یمنی فوجی شہید ہوگئے۔

خطے کے عسکری امور کے تجزیہ کار محمد منصور نے المیادین نیوز چینل کے ساتھ گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ باب المندب اور بحیرہ احمر میں امریکی بحری نقل و حرکت کا غزہ کی صورت ح سے گہرا تعلق ہے، لہذا کہا جائے کہ اس نقل و حرکت کا مقصد ایلات بندرگاہ میں صیہونی حکومت کے حساس علاقوں کی حفاظت اور اس کی فضائی سپلائی کو  یقینی بنانا ہے، کیونکہ تل ابیب لبنانی اور یمنی مزاحمت کے میزائلوں کو روکنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ 

منصور نے واضح کیا کہ بحیرہ احمر میں امریکی نقل و حرکت کا تعلق  آبنائے باب المندب کے بارے میں واشنگٹن کے اسٹریٹجک نقطہ نظر اور 2018 سے اس آبنائے کے ارد گرد یمنی سرگرمیوں سے ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکہ موجودہ حالات کو کیش کرتے ہوئے اس آبنائے کو تجارتی جہاز رانی کے خطرات کا بہانہ بنا کر دوبارہ اپنے تسلط میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاکہ  آبنائے باب المندب کے ذریعے اپنے حامیوں کے لئے تیل اور اشیاء کی تجارت کے عمل کو محفوظ بنایا جاسکے۔ لیکن یمنی حملوں کی وجہ سے کچھ شپنگ کمپنیوں نے اپنے روٹ تبدیل کیے ہیں۔

منصور نے مزید کہا کہ مصر آبنائے باب المندب کے شمال میں اپنی بحری موجودگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن وہ موجودہ صورتحال میں باب المندب اور غزہ کی پٹی میں کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتا، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ قاہرہ خطے کی موجودہ صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ایک ہے۔ 

لہذا مصر کے مفادات کا  تقاضا ہے کہ غزہ میں صیہونی فوجی کارروائیوں کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے انسانی امداد کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مصر کا غزہ میں جنگ بندی کا منصوبہ بھی اسی بنیاد پر پیش کیا گیا ہے۔