مہر خبررساں ایجنسی نے ایکسپریس نیوز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ غیرملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کے باعث ان کمپنیوں کی آمدن میں نمایاں کمی آئی ہے ۔
بائیکاٹ کرنیوالوں کا خیال ہے کہ اگر وہ فلسطینیوں کے حق میں براہ راست جنگ نہیں لڑ سکتے تو اسرائیل اور امریکا کا معاشی بائیکاٹ کر کے اس میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔
رواں سال اکتوبر میں سوشل میڈیا پر شروع ہونے والی اس بائیکاٹ مہم سے متعلق مختلف مواد شئیر کیا جا رہا ہے جن میں دودرجن سے زائد مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی جارہی ہے۔
صارفین کا دعوی ہے کہ یہ مصنوعات اسرائیلی اورامریکی کمپنیاں بناتی ہیں یا پھر ان کی پیرنٹ کمپنیوں کے مالکان یہودی ہیں۔ اس مہم میں عام شہریوں سے بڑھ کر مذہبی جماعتوں سے وابستہ افراد زیادہ حصہ لے رہے ہیں۔ اس مہم میں متبادل کے طور پر مقامی مصنوعات کی فہرست بھی شیئر کی جارہی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون صارف زینب ارشد کہتی ہیں ” اگرہم اسرائیلی مظالم اورمعصوم فلسطینیوں پر کی جانیوالی بمباری کو نہیں روک سکتے تو کم ازکم اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اس کومعاشی نقصان تو پہنچا ہی سکتے ہیں”۔
ایک اور شہری حافظ وسیم احمد کہتے ہیں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کامیاب جارہی ہے،اگرتمام مسلم ممالک کے عوام متحد ہوکر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو چند ہفتوں میں اسرائیل کی معاشی طور پرکمر توڑی جاسکتی ہے۔