مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی کی یادداشتوں کا ترجمہ "سیل نمبر 14" کے عنوان سے منظر عام پر آچکا ہے جس کی نقاب کشائی لزبن میں پرتگالی اور ایرانی میڈیا کے ارکان اور محققین کے ایک گروپ کی موجودگی میں کی گئی۔ تقریب میں لزبن میں مقیم بیرونی ممالک کے سفیروں اور تاجروں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
پرتگال میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر مجید تفرشی نے پرتگالی زبان میں کتاب "خون دلی کہ لعل شد" کے ترجمے اور نقاب کشائی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کتاب کے موضوع کو مزاحمت قرار دیا اور کہا کہ الجزائر، کیوبا اور جنوبی افریقہ جیسی کئی قومیں مزاحمت کر کے اپنے مقاصد حاصل کر چکے ہیں۔ جیسا کہ رہبر معظم انقلاب کی یادداشتیں بتاتی ہیں کہ ایرانی انقلاب مزاحمت کے نتیجے میں برپا ہوا۔
لزبن میں فلسطینی سفیر نبیل ابو زنید نے فلسطینی عوام کی مزاحمت کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ ایران کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ 1979 میں ہم واشنگٹن میں احتجاج کر رہے تھے۔ اس وقت ایران کے عظیم رہنما آیت اللہ خمینیؒ نے انقلاب کے بعد یاسر عرفات کی موجودگی میں تہران میں فلسطینی سفارت خانے کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ وہ واقعہ سب سے بڑی تبدیلی تھی۔ یہ فلسطینیوں اور جنوبی افریقہ کے لوگوں کے لیے واقعی ایک اہم مسئلہ تھا۔ میں اس وقت واشنگٹن میں تھا اور جنوبی افریقہ کے لوگوں کے حق میں مظاہرے میں شامل ہوا تھا۔
انہوں نے غزہ کی صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے فلسطین پر صیہونی قبضے کو روکنے کے لیے ماضی میں کی جانے والی کوششوں کی ناکامی اور اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی عدم پاسداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑی طاقتوں کے جبر کے خلاف عالمی مزاحمت کا مطالبہ کیا۔
تقریب میں جنوبی افریقہ کے سفیر مامک وینا گیور ٹیلل نے جنوبی افریقہ میں مزاحمت کے تجربے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آج جو کچھ فلسطینی عوام کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ہم افریقیوں کے لیے قابل فہم ہے۔ جب ہم فلسطین کی صورتحال دیکھتے ہیں تو ہمارے زخم زندہ ہوجا جاتے ہیں۔ موت کی آغوش میں جانے والے معصوم بچے اور تباہ ہونے والے نہتے لوگ ہمیں تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس لیے مزاحمت کا تصور ہمارے لیے بہت اہم ہے اور فلسطینی عوام کی فتح یقینی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ منڈیلا کی جیل سے رہائی کے بعد ہمارا ملک جیت گیا۔ جیسا کہ آیت اللہ خامنہ ای کی کتاب میں ذکر کیا گیا ہے کہ ایرانی انقلاب ایرانی عوام کے بہت سے مصائب اور مزاحمت کے بعد جیتا۔ لہٰذا مزاحمت کے نتیجے میں فتح یقینی ہے۔
لزبن میں الجزائر کے سفیر جناب شکیب راشد نے بھی الجزائر کے عوام کی مزاحمت کی تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہمارے ملک پر 1830 سے 1962 تک قبضہ کیا گیا اور ڈیڑھ ملین سے زیادہ شہید ہوئے۔ ہم فلسطین کے حالات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور الجزائر میں ہماری نوجوان نسل مزاحمت کے ثقافتی ماحول میں پروان چڑھی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین کی فتح یقینی ہے۔
لزبن میں کیوبا کی سفیر مسز ماریا ڈومیگیز نے بھی کیوبا میں مزاحمت کے تجربے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کیوبا میں مزاحمت کی ایک اور شکل کا تجربہ کیا۔ کیوبا کو نوآبادیاتی بنانے کے بعد اسپین نے فتح کر لیا۔ لیکن اس پر دوبارہ امریکیوں نے قبضہ کر لیا۔ ہمارے لوگوں نے اپنی خودمختاری قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جیسا کہ ایران کے عوام نے 1979 میں انقلاب برپا کیا۔ ہم بین الاقوامی سطح پر سرگرم ہیں اور فلسطین اور اس کے کاز کا دفاع کرتے ہیں۔ اس لیے ہمارے لوگوں میں مزاحمت کو ادارہ جاتی شکل دی گئی ہے اور ہم اسے اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لہذا میں آپ کو یہ واضح کرتی چلوں کہ بالآخر مزاحمت کی جیت یقینی ہے.
ادارہ انقلاب اسلامی کے بین الاقوامی نائب صدر محمد اخگری نے بھی اس کتاب کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فتح کے حصول کے لیے عوام کے مصائب اور مزاحمت کو بنیادی عنصر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب فتح کے حصول کے لیے ایرانی عوام کی مزاحمت کی تاریخ کی نمائندگی کرتی ہے۔
انہوں نے کتاب کا ایک حصہ بیان کرتے ہوئے رہبر معظم انقلاب اسلامی کی سیاہ ستمبر کی یاد داشت کے بارے کہا کہ آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی ہم فلسطینیوں کے قتل عام کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور مزاحمت اس کتاب کا بنیادی موضوع ہے جو فلسطینیوں کی فتح کو یقینی بناتا ہے۔