طوفان الاقصی کے بعد ثابت ہوا کہ فلسطینی بچے اور بوڑھے، مرد اور خواتین سب مقاومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں تاہم غاصب صہیونیوں کے خلاف مزاحمت میں فلسطینی خواتین کا کردار سب سے زیادہ واضح ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ ستر سال سے صہیونی غاصبوں کے خلاف مزاحمت میں فلسطینی خواتین نے خود کو نمونے کے طور پر پیش کیا ہے۔ فلسطین کی آبادی کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے لہذا مقاومت کے عمل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ کئی بچوں کی ماں کو میدان نبرد میں دیکھ کر دوسروں کو بھی بہت حوصلہ ملتا ہے۔ سیاسی، دفاعی اور ثقافتی میدانوں میں فلسطینی خواتین نے اپنے کردار کے ساتھ خوب انصاف کیا ہے۔
1921 میں بیت المقدس میں فلسطینی خواتین کی ابتدائی تنظیم تشکیل دی گئی 1929 میں یروشلم میں اہم اجلاس میں 3 ہزار خواتین نے شرکت اعلان بالفور کو منسوخ اور فلسطین میں صہیونیوں کی آمد کو روکنے کا مطالبہ کیا۔
1948 کی جنگ سے پہلے حیفا میں بھی فلسطینی خواتین کی تنظیم زھرات الاقحوان وجود میں آئی تھی جس نے میڈیکل، غذا، پانی اور دیگر زندگی کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔

صہیونی جیلوں میں فلسطینی خواتین کی مزاحمت

فلسطینی خواتین کو اپنے خاندان اور گھر بار کی حفاظت کے میدان میں صہیونی فورسز کے مقابلے میں اہم چیلنجز درکار ہیں۔ تصادم کے واقعات میں صہیونی فوجیوں کی طرف سے تشدد اور بدسلوکی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان واقعات میں بغیر کسی جرم کے فلسطینی خواتین کو پکڑ کر پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔

ذرائع ابلاغ میں منتشر ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ کئی سالوں کے دوران صہیونی فوجیوں اور فلسطینی خواتین کے درمیان براہ راست تصادم کے متعدد واقعات رونما ہوئے۔ طوفان الاقصی کے دوران حماس نے صہیونی جیلوں میں قید فلسطینی خواتین اور بچوں کی رہائی کے لئے صہیونیوں کو یرغمال بنادیا۔

کئی فلسطینی خواتین کو جنگ بندی کے دوران تبادلے کے ضمن میں آزاد کیا گیا۔ اسراء جعابیص ان خواتین میں سے ایک ہے جس کو 8 سال صہیونی جیل میں گزارنے کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔ 11 اکتوبر 2015 کو اریحا شہر سے واپسی کے دوران ان کی گاڑی خراب ہوگئی۔ اس دوران صہیونی سیکورٹی فورسز نے ان کی گاڑی کی جانب فائرنگ کی۔ دھماکہ مواد کے پھٹنے سے ان کا جسم جھلس گیا۔ ان کے ہاتھوں اور چہرے پر زخم آئے۔

جیل میں بچہ جننے والی فلسطینی عورتیں

کچھ فلسطینی عورتوں کو حمل کے دوران صہیونیوں نے گرفتار کیا۔ انہوں نے جیل میں صہیونیوں کے مظالم کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے شکم میں بچہ پالا اور جیل میں ہی بچے کی ولادت ہوگئی۔ 

اناتولی نیوز کے مطابق انسانی حقوق کی کارکن سمر صبیح کو صہیونی فوجیوں نے حمل کے ایام میں گرفتار کیا۔ ان پر القسام بریگیڈز کو دھماکہ خیز مواد کی تیاری میں مدد دینے کا الزام لگایا گیا۔ صبیح کے مطابق حاملہ ہونے کے باوجود جیل میں ان کو مناسب غذا دینے کے بجائے نمک کے بغیر کچی غذا دی جاتی تھی۔

30 اپریل 2006 کو حمل کے درد کی وجہ سے نیند سے بیدار ہوئی۔ جیل کی گاڑی میں مجھے ہتھگڑی پہنائی گئی۔ گاڑی کے اندر پولیس کا کتا میرے ہاتھوں کے زنجیروں سے کھیل رہا تھا۔ جیل گارڈ کے سامنے میں نے بچہ جنا۔ ولادت کے فورا بعد بچے کو مجھ سے جدا کیا گیا حتی کہ اس کی بو بھی سونگھنے نہیں دیا۔

مسجد اقصی کی مدافع خواتین

بعض خواتین کئی سالوں سے مسجد اقصی کے دفاع میں مشغول ہیں تاکہ صہیونی حکومت کی سازشوں سے محفوظ رکھ سکیں انہوں نے خود مرابطات الاقصی نام رکھا ہے۔

قرآن اور دنیوی علوم پڑھانے والی یہ خواتین مسجد اقصی میں حاضری دیتے ہوئے قرآن کا درس دیتی ہیں۔ اس دوران صہیونیوں کی جانب سے مسجد اقصی بے حرمتی اور اہانت کے بارے میں بھی ہوشیار رہتی ہیں۔ ان میں سے بعض خواتین سوشل میڈیا پر مسجد اقصی کی حفاظت کے حوالے سے تصاویر اور ویڈیوز شئیر کرتے ہوئے فعالیت کرتی ہیں۔

مرابطات الاقصی کی جانب سے پورے سال کے دوران مختلف پروگرام رکھے جاتے ہیں تاکہ مسجد اقصی کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔ رمضان المبارک میں افطاری کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے جس میں صہیونی حکومت کی سرنگونی کی علامت کے طور پر برتن اور غذا کو مخصوص انداز میں رکھا جاتا ہے۔


مسجد اقصی میں ان خواتین کی موجودگی میڈیا کے نمائندوں کی مانند ہے جو صہیونی آبادکاروں سے خطرہ ہونے کی صورت میں بروقت فلسطینی جوانوں کو خبردار کرتی ہیں اس کے بعد فلسطینی جوان موقع پر حاضر ہوکر صہیونی غاصبوں کے خلاف ایکشن لیتے ہیں۔

مرابطات الاقصی سے تعلق رکھنے والی بعض خواتین کو بھی صہیونی فوج نے بلاوجہ گرفتار کیا ہے جن میں خدیجہ خویص بھی شامل ہیں۔ 

سوشل میڈیا پر فعال فلسطینی خواتین صہیونی حکومت کی جنایتوں کے بارے میں اطلاع رسانی کرتی ہیں۔ مونا الکرد ان خواتین میں سے ایک ہے۔ الکرد اپنے بھائی کے ہمراہ انسانی حقوق کا دفاع کرتے ہوئے صہیونیوں کی جانب سے فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کرنے کے خلاف آواز بلند کرتی ہے۔ ان دونوں بہن بھائیوں کی سوشل میڈیا پر فعالیت اس قدر زیادہ ہے کہ امریکی ٹائم میگزین نے ان کو دنیا کے ابتدائی سو فعال ترین سوشل میڈیا صارفین میں سے قرار دیا تھا۔

غزہ کی خواتین کی مزاحمت، فلسطینی تاریخ کا روشن باب

رہبر معظم نے غزہ کے حالات کے بارے میں حال ہی میں فرمایا کہ غزہ میں خواتین اور بچوں کا قتل عام اور فلسطینیوں کی جبری مہاجرت صہیونی حکومت کے ان جرائم میں سے ہیں جو گذشتہ 75 سالوں سے جاری ہیں۔ ان سارے جرائم کو گذشتہ 50 روز کے اندر دوبارہ دہرایا گیا ہے۔ غزہ کئی سالوں سے انتہائی شدید محاصرے میں ہے جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی مجموعی آبادی 22 لاکھ ہے جس میں سے 49 فیصد خواتین پر مشتمل ہے ان خواتین میں سے اکثریت جوانوں اور بچوں کی ہے لہذا حملوں مخصوصا بمباری میں ان خواتین کے متاثر ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں حاملہ خواتین صہیونی حملوں کے دوران شہید یا زخمی ہوگئی ہیں۔ 

اتنی مشکلات کے باوجود غزہ میں بے گھر خواتین کا ایک گروہ جنگ سے متاثر ہونے والوں کو کھانا پکاکر خدمت انجام دے رہا ہے۔ 

غزہ کی خواتین بچوں اور گھر بار سے محروم ہونے کے بعد انتہائی مشکلات میں زندگی گزار رہی ہیں۔ بعض جنگ میں زخمی ہونے والے بچوں کے ہمراہ بے گھر ہوکر دیار غیر میں رہتی ہیں جبکہ کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو کھودیا ہے اور ان بچوں کی مادری کررہی ہیں جن کے ماں باپ صہیونی حملوں میں اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔

اسرائیل کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرنے والی فلسطینی خواتین میں سے ایک شہیدہ جمیلہ الشنطی بھی ہیں جو حال ہی میں غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ حملے کے نتیجے میں شہید ہوگئی۔

ڈاکٹر جمیلہ الشنطی 1987 میں حماس کی تشکیل کے بعد تنظیم کی اہم رہنماوں میں شمار ہوتی تھیں۔ 2021 میں ان کو تنظیم کے سیاسی دفتر کے رکن کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ اس وقت انہوں نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ حماس میں خواتین کو اہم کردار دیا جاتا ہے۔ 

فسلطینی ماؤں کا بچوں کو درس شہادت

فلسطینی شہیدوں کی ماں، بہن یا بیٹی کی حیثیت سے فلسطینی خواتین نے اپنے بچوں کو آخری درس شہادت کا ہی دیا ہے۔ فلسطینی خواتین نے خود بھی جہادی کاروائیوں میں حصہ لیتے ہوئے صہیونی فورسز پر شدید ضربات لگائے ہیں۔

غزہ کی جنگ میں اب تک 4 ہزار سے زائد فلسطینی خواتین شہید ہوچکی ہیں جن میں بڑی تعداد نے اپنے بچوں کو دنیا میں چھوڑا ہے تاکہ ان کی راہ کو جاری رکھیں۔

مغرب کی جانب سے خواتین اور انسانی حقوق کے احترام میں شدید نعروں کے باوجود فلسطینی خواتین گذشتہ 75 سالوں سے ابتدائی حقوق سے بھی محروم ہیں کیونکہ امریکہ اور مغربی ممالک کی حمایت سے اسرائیل نے ان کے سارے حقوق سلب کرلئے ہیں۔ ایک فلسطینی بے گھر خاتون کے مطابق وہ اس حالت میں بچوں کو دودھ پلاتی ہے کہ مہاجرت کے بجائے مقاومت کی خوشبو محسوس کرتی ہے۔ یہ بچے بہادری کے ساتھ لڑتے ہوئے دشمن کو سبق سکھائیں گے اور اپنے وطن کو آزاد کریں گے۔