مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، گارڈین کونسل کے سکریٹری آیت اللہ احمد جنتی نے آج (22 نومبر) کے اجلاس کے آغاز میں کہا: آج ظالموں کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ سرحدوں سے بالا تر ایک عالم گیر ثقافت بن چکا ہے جس نے دنیا کے آزاد انسانوں میں یہ امید پیدا کر دی ہے کہ دنیا پر صالح حکمرانی کے خدائی وعدے کی تکمیل کا راستہ اب زیادہ طویل نہیں رہا۔
انہوں نے فلسطینی عوام کی مزاحمت کے بارے میں کہا: ان کی بہادرانہ مزاحمت اس یقین پر مبنی ہے کہ ظلم ہمیشہ قائم نہیں رہے گا۔ فلسطینی مزاحمت صہیونی جبر کا خاتمہ کرے گی۔ اس مزاحمت نے ناجائز اسرائیلی حکومت اور اس کے حامیوں کے کھوکھلے نعروں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور وہ اس وقت اپنی جھوٹی ساکھ بچانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ممالک کے آزاد عوام بھی استکباری حکومتوں کے سامنے کھڑے ہو کر ان کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
انہوں نے ہفتہ بسیج کی آمد اور اس ادارے کے قیام کی سالگرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: ہم امام خمینی (رہ) اور بسیج کے تمام اراکین کے بلند جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی کوششوں سے اس قابل قدر گروہ کو تقویت بخشی۔
انہوں نے کہا: بسیج خدا کے فضل کا مظہر ہے جو ایران کے مومنین کی شاہی حکومت سے بغاوت کے بعد اس خدا پرست قوم کو عطا ہوا اور جیسے جیسے اس شجر طیبہ کی عمر میں اضافہ ہورہا ہے اس کی برکات مزید ظاہر ہوتی جا رہی ہیں۔
آیت اللہ جنتی نے تاکید کی کہ بسیج کی سوچ قربانی اور آزادی پر مبنی ہے اور یہ سوچ جس میدان میں ہوگی کامیابی کے یقینی ہوگی اور جس میدان میں بھی اس سوچ کو نظر انداز کیا جائے گا ہم مشکلات کو دیکھیں گے۔
گارڈین کونسل کے سیکرٹری نے عوام اور نوجوانوں کو امام خمینی (رہ) اور رہبر معظم کے بیانات کا مطالعہ کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بسیج کا نقطہ نظر عالمی ہے اور بسیجی اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کے اعلیٰ اصولوں پر انحصار کرتے ہیں۔ بسیجی (رضاکار) ظلم و ستم سے پاک دنیا میں جینے کو تمام انسانوں کا حق سمجھتا ہے اور اس آئیڈیل کو پانے کی کوشش کرتا ہے۔
انہوں نے بانی انقلاب اسلامی امام راحل کے اس جملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ "بسیج صرف اسلامی جمہوریہ ایران تک محدود نہیں ہے بلکہ اسے چاہئے کہ پوری دنیا میں مزاحمت کو وجود میں لائے اور مشرق و مغرب کے مقابلے میں اٹھ کھڑی ہو" کہا کہ اس وقت یہ مسئلہ بہت سے لوگوں کے لئے ایک ناقابل حصول خواب تھا، لیکن آج یہ ایک ناقابل تردید حقیقت بن چکا ہے۔