مہر خبررسان ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکی صدر جوبائیڈن نے حماس کی قید سے امریکی قیدیوں کی رہائی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ حماس نے دو امریکی شہری رہا کردیے ہیں۔ ان کی رہائی کے سلسلے میں قطر اور اسرائیل کے مشکور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں غزہ میں آئندہ 24 سے 48 گھنٹوں کے اندر امدادی سامان پہنچنا شروع ہوجائیں گے۔
یاد رہے کہ قطر نے بھی امریکی قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے تمام فریقوں سے رابطہ جاری رکھنے پر تاکید کی ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریقوں سے مسلسل رابطے کے نتیجے میں غزہ سے دو امریکیوں کی رہائی ممکن ہوئی۔ اسرائیل اور حماس کے اعلی رہنماوں سے مزید رابطے ہورہے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں مختلف ممالک کے سویلین قیدی رہا ہوجائیں گے۔
دراین اثناء صہیونی وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں بھی امریکی قیدیوں کی رہائی کی تصدیق کردی ہے۔
بیان کے مطابق حماس کی قید سے رہا ہونے والوں کو اسرائیلی فوجی اڈے میں منتقل کیا گیا ہے۔
فلسطینی تنظیم حماس کے مسلح ونگ القسام بریگیڈ نے اسرائیل کے خلاف طوفان الاقصی آپریشن کے دوران گرفتار دو قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
القسام کے ترجمان ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ امریکی شہری خاتون اور اس کی بیٹی کو رہا کردیا گیا ہے تاکہ صدر جوبائیڈن کے منفی بیانات کی حقیقت دنیا کے سامنے آشکار ہوجائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ قطر کی کوششوں کے نتیجے میں یہ رہائی عمل میں آئی جس کا مقصد خالص انسانی ہمدردی ظاہر کرنا ہے۔
اس سے پہلے ابوعبیدہ نے بیان دیا تھا ک مقاومتی تنظیموں نے 250 صہیونیوں کو گرفتار کرلیا ہے جن میں القسام کے پاس 200 موجود ہیں۔
یاد رہے کہ غزہ میں محاصرے میں موجود فلسطینیوں کے حق میں دنیا بھر صدائے احتجاج بلند ہورہی ہے۔ نامور امریکی یہودی اور محقق نورمن فینکلسٹن نے کہا ہے کہ یہ بات تمہارے لئے باعث شرم ہے کہ غزہ کے کیمپوں میں پیدا ہونے والے وہاں سے نکلنے کے لئے ان طریقوں کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ شاید ان کے اس طریقے پر اعتراض کیا جائے اور تنقید کی جائے۔ صحیح ہے کہ انہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا لیکن یہ بھی مت بھولیں کہ فسلطینیوں نے 2018 میں ریلی نکالی تو اسرائیل نے معذوروں اور طبی عملے کو بھی نہیں بخشا۔ ان حالات میں فلسطینی اور کیا کریں؟