مہر خبررساں ایجنسی نے تاس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ترک حکام نے زنگزور کوریڈور کے بارے میں ایک بار پھر اپنے دعوؤں کو دہرایا ہے۔
ترکیہ کے وزیر ٹرانسپورٹ "عبدالقادر اورالوگلو" نے "ٹی۔ آر۔ٹی" ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر آرمینیا راہداری ٹرانسپورٹ روٹ کے لیے اپنا علاقہ فراہم کرنے سے انکار کرتا ہے تو زنگزور کوریڈور ایران سے گزر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا: "اہم سوال یہ ہے کہ کیا زنگزور کوریڈور آرمینیا سے گزرتا ہے یا نہیں؟اصل جغرافیائی حالات کے لحاظ سے یہ راہداری ہر اس خطے کے لیے مفید ہو گی جس سے یہ روٹ گزرتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ آرمینیا سیاسی تحفظات کے بغیر اس مسئلے کا جائزہ لے گا، بصورت دیگر متبادل کے طور پر اس راہداری کو ایران کی سرحدوں سے عبور کرنے کا امکان پیدا ہو جائے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ زنگزور روٹ اس وقت کافی حد تک راہداری روٹ کے طور پر زیر غور ہے۔
ایک راستہ ہے جو باکو سے خان شہر تک جاتا ہے جسے ایک ترک کمپنی کی جانب سے آرمینیائی سرحد تک پھیلانے کے لیے کام جاری ہے اور نخجوان میں تقریباً 110 کلومیٹر کا ایک اور راستہ بھی زیر تعمیر ہے۔
یہ راہداری روٹ ترکیہ میں واقع قارس تک جاتا ہے جو کہ 224 کلومیٹر راستہ ترکیہ کے اندر بنتا ہے۔
ترکیہ کے وزیر ٹرانسپورٹ کے مطابق، نخجوان میں اس سڑک کو مکمل کرنے کا کام جلد شروع ہو جائے گا، اور ایک ماہ کے اندر ترکیہ اپنے پورے علاقے میں سڑک کی توسیع کی تعمیر کے لیے ٹینڈر کرے گا۔
دوسری طرف جمہوریہ آذربائیجان نے اعلان کیا ہے کہ وہ زنگزور کے نام سے ایک راہداری روٹ بنانا چاہتا ہے جو آذربائیجان کو آرمینیا اور ترکیہ کے درمیان واقع علاقے نخجوان سے جوڑتا ہے۔ اس روٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ آرمینیا سے ہو گزرتا ہے اور اس راہداری منصوبے میں ہائی ویز اور ریلوے کی تعمیر شامل ہے۔
قبل ازیں ترک صدر رجب طیب اردغان نے نخجوان سے واپسی پر زنگزور اور لاچین راہداریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہماری خواہش ہے کہ ان راہداریوں کو امن راہداری کے طور پر کھولا جائے کیونکہ ایسی راہداری کے بارے میں سوچنا بھی ناممکن ہے کہ جہاں ہمیشہ جنگی صورت حال رہتہ ہو۔ لہذا ہم "زنگزور" کوریڈور کو کھولنے کے لیے ضروری کوشش کریں گے، زنگزور" کوریڈور بننے سے ممالک اور خطے کی سلامتی کو فائدہ ہوگا۔ باکو-تہران روٹ کے بارے مثبت رجحان پایا جاتا ہے اور اس سلسلے میں اہم پیش رفت ہو سکتی ہے۔
اگر آرمینیا "زنگزور" راہداری کے لیے راہ ہموار نہیں کرتا تو یہ راہداری ایران سے گزرے گی۔ ایران اپنی سرزمین سے راہداری کے گزرنے کے بارے میں مثبت رائے رکھتا ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اس سے قبل ایران کی خارجہ تعلقات کی اسٹریٹجک کونسل کے سربراہ "سید کمال خرازی" نے ایک گفتگو میں اس بات پر زور دیا تھا کہ باکو زنگزور کوریڈور کو جمہوریہ آذربائیجان کی خودمختاری کے تحت نخجوان کو اس کی مرکزی زمین سے جوڑنے کے لئے فراہم کرسکتا ہے تاہم کاراباخ کا مسئلہ حل ہو چکا ہے اور لاچین کوریڈور اب غیر موثر ہو چکا ہے جس کے باعث اب اس طرح کی باہمی راہداری کی درخواست کا کوئی جواز نہیں رہا۔
خرازی نے مزید کہا کہ یقیناً خطے کے ممالک ہمسایوں کو اپنے مواصلاتی راستے ٹرانزٹ تعاون کی صورت میں فراہم کر سکتے ہیں اور جمہوریہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان اس طرح کا تعاون بھی قابل دفاع ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ دھمکیوں اور قبضے کے ذریعے اس طرح کا رابطہ قائم کیا جائے۔
چونکہ اسلامی جمہوریہ ایران نخجوان کو جمہوریہ آذربائیجان کی سرزمین سے جوڑنے کی اہمیت سے واقف ہے اس لیے وہ ایران کی سرزمین سے جمہوریہ آذربائیجان تک اس طرح کا رابطہ فراہم کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے اور وہ باکو کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
لہذا آذربائیجان کے جنوب میں زنگیلان کے علاقے اور ایران اور آرمینیا کی سرحد کے قریب نخجوان کے شہر اردوباد تک 55 کلومیٹر طویل سڑک اور ریلوے کی تعمیر کے لیے ایک معاہدہ طے پایا ہے۔