مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حسین امیرعبداللہیان نے ہفتے کی شام نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس سے ملاقات کی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے گوتریس کو اپنے پڑوسیوں اور بعض عرب اور اسلامی ممالک کے ساتھ ایران کے تعلقات میں حاصل ہونے والے رجحانات اور اچھی پیش رفت سے آگاہ کیا۔
انہوں نے امریکہ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے اور جنوبی کوریا میں ایران کے منجمد اثاثوں کی رہائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: جے سی پی او اے کے حوالے سے ہماری ہمیشہ آپ سے اچھی مشاورت ہوتی ہے۔ امریکہ کے ساتھ پیغامات کا تبادلہ جاری ہے اور عمان کے سلطان کی تجویز ابھی میز پر ہے اور اگر دیگر فریق تیار ہیں تو ہم JCPOA میں واپسی کے لیے سنجیدہ ہیں، تاکہ تمام فریق عمان کے اقدام کے فریم ورک کے اندر JCPOA میں کئے گئے اپنے وعدوں پر واپس آئیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کے بارے میں بھی کہا؛ جب بھی ایجنسی تکنیکی فریم ورک کے اندر کام کرتی ہے، معاملات درست سمت میں آگے بڑھتت ہیں۔ لیکن یہ اس وقت بگڑ جاتے ہیں جب دوسرے (فریق مخالف) ایجنسی کے پیشہ ورانہ امور پر اپنے سیاسی خیالات کو ترجیح دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے نظریے میں ایٹمی بم کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا: ڈاکٹر رئیسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں کچھ تجاویز پیش کیں۔ ان کے خطاب کا ایک اہم حصہ خاندان کی بنیاد کے تحفظ کی ضرورت سے متعلق تھا۔
لہذا خاندان کی بنیاد کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے فریم ورک میں ایک طریقہ کار کا ہونا ضروری ہے۔
امیر عبداللہیان نے یوکرین کے بحران کے بارے میں ایران کے بنیادی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ہم یوکرین سمیت تمام ممالک کی علاقائی سالمیت کے پابند ہیں اور ہم جنگ کو حل نہیں سمجھتے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوتریس نے اس ملاقات پر اطمینان کا اظہار کیا اور ایرانی وزیرخارجہ کی وساطت سے شیئر کئے گئے نکات پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ صدر رئیسی سے ان کی اچھی ملاقات رہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں مسائل کے حل، رکاوٹوں کو دور کرنے اور ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے میں آپ کے سفارتی اقدامات پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔