مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، میجر جنرل حسین سلامی نے منگل کے روز تہران کے شمال میں آئی آر آئی بی انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر میں منعقدہ "ایک نئی دنیا" کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ایشیائی خطہ جدید دور میں عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کا میدان رہا ہے۔
مغربی ایشیا کے جغرافیائی محل وقوع اور اس کے بے پناہ وسائل کی وجہ سے اس خطے پر استعماری طاقتوں کی ہمیشہ سے نظر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج اسلامی انقلاب بحیرہ روم کے مشرق اور بحیرہ احمر کے شمال میں دشمنوں کا مقابلہ کر رہا ہے اور اس انقلاب کا جغرافیہ وسیع ہو گیا ہے اور ہمارے پاس بہت سی معاون طاقتیں ہیں، مثال کے طور پر لبنان میں حزب اللہ ہے جو اس خطے میں سیاست اور سکیورٹی کے حوالے سے طاقت کے توازن کا تعین کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی فتح سے پہلے فلسطین میں مزاحمت کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے لیکن آج فلسطینی گروہوں نے تمام مقبوضہ علاقوں کو مزاحمتی کاروائیوں کی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور صیہونیوں کو اب سکون کی نیند میسر نہیں۔
جنرل سلامی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ مغربی کنارے میں صیہونیوں کے خلاف روزانہ 30 سے زیادہ مسلح کارروائیاں کی جاتی ہیں، مزید کہا کہ جو لوگ ماضی میں پتھروں سے لڑتے تھے، آج ان کے پاس میزائل اور ڈرون ہیں اور وہ اس وقت فوجی طاقت سے لیس ہوچکے ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ صیہونی حکومت اب تنہائی کا شکا ہونے کے ساتھ خانہ جنگی، سیاسی افراتفری، سماجی بحران اور سکیورٹی چیلنجز سے بھی دو چار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کے خلاف دنیا میں ایک طاقتور اتحاد تشکیل پا چکا ہے اور مزاحمتی ریاست ماضی کے مقابلے میں اب بہت مختلف ہو چکی ہے۔