مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علی باقری جو اپنے پولینڈ کے ہم منصب کے ساتھ سیاسی مشاورت کے نئے دور کے انعقاد کے لیے وارسا میں ہیں، نے پولینڈ میں مقیم متعدد غیر ملکی سفارت کاروں کے ساتھ ملاقات میں ایران کی اسٹریٹجک ہمسائیگی پالیسی کی افادیت کا ذکر کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران اور اس پالیسی کے اصول کے اجزاء کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "باہمی سیاسی اعتماد، مسائل کے حل کے لیے علاقائی صلاحیتوں پر انحصار، ترقی کے لیے اضافی علاقائی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا اور اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرنا
دوسرے لفظوں میں ادارہ جاتی تعاون، اقتصادی پیش رفت اور خطے کے ممالک کے درمیان سرمایہ کاری اور تجارتی ترقی کو فروغ دینا ایران کی ہمسائیگی پالیسی کے اہم ترین اجزاء میں سے ہیں۔
انہوں نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے احیاء کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تہران اور ریاض کے اسٹریٹجک اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے کے ممالک میں سیاسی پختگی ہے آگئی ہے جو علاقے کے مسائل کے حل کے لیے بہت ضروری ہے۔
باقری نے تمام عالمی سیاسی قوتوں کی طرف سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے کی قبولیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ واحد قوت جو تہران اور ریاض کے درمیان تعامل کے بارے میں فکر مند تھی اور اپنی پریشانی کو چھپا بھی نہیں سکی وہ مقبوضہ بیت المقدس کی غاصب ضیہونی حکومت تھی۔ کیونکہ اس رژیم کی پالیسی یی کشیدگی اور عدم استحکام پر مبنی ہے اور یہ خطے میں نا امنی اور افراتفری کا واحد عامل ہے۔
خطے میں نیٹو کے کردار کے بارے میں سفیروں میں سے ایک کے سوال کے جواب میں نائب وزیر خارجہ نے کہا: افغانستان میں نیٹو کی موجودگی نے سب پر ثابت کر دیا کہ نیٹو نہ صرف سیکورٹی فراہم والا ادارہ نہیں ہے بلکہ عدم تحفظ کو فروغ دینے والے عنصر کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان میں نیٹو کے رکن ممالک کی 20 سال کی موجودگی کا نتیجہ اس ملک میں منشیات کی پیداوار میں 45 گنا اضافہ تھا۔
اس اجلاس میں ایشیا اور یورپ کے کئی سفیروں اور سفارت کاروں نے شرکت کی اور بحث میں حصہ لیا۔