مہر خبررساں ایجنسی - بین الاقوامی ڈیسک: غیر ملکی کھلاڑیوں اور عالمی طاقتوں نے یمن بحران کے سیاسی حل کے حوالے سے متعدد تجاویز پیش کی ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر تجاویز یمنی قوم کی توقعات اور نقطہ نظر سے متصادم ہیں اور یمنی بحران کے حل کے طریقہ کار کے حوالے سے علاقائی یا بین الاقوامی سطح پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔
شاید غیر ملکی کھلاڑی قوتوں کی کثرت اور یمن میں ان کے منصوبوں یا مفادات کے تصادم نے یمن کے بحران میں بین الاقوامی طاقتوں کو علاقائی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر مجبور کیا ہے۔
لیکن مختلف فریقوں کو درپیش اصل مخمصہ غیر ملکی کھلاڑیوں کے مفادات اور یمنی قوم کے عمومی مفادات کے درمیان ٹکراؤ میں ہے۔
اس سلسلے میں مہر خبر رساں ایجنسی کے نامہ نگار نے انصار اللہ کے سیاسی دفتر کے رکن "عبدالوہاب یحیی المحبشی" کے ساتھ گفتگو کی ہے جو درج ذیل ہے:
آئیے بات چیت کا آغاز یمن کے ساحل پر آئل ٹینکروں کی موجودگی کو روکنے کے حوالے سے امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے سہ فریقی بیان پر متعلقہ یمنی اداروں کے ردعمل سے کرتے ہیں۔ اس رد عمل میں غلط فہمی اور حقائق کو برعکس دکھانے کا ذکر کیا گیا ہے، اصل حقیقت اور ماجرا کیا ہے؟
گفتگو کے آغاز میں، میں یہ ضرور کہوں گا کہ استعماری ممالک کے سفیروں کے بیان میں سب سے اہم غلط فہمی ان کا یہ دعویٰ ہے کہ جن لوگوں نے تیل کی برآمد کو روکا ہے اور اقتصادی بحران کا سبب بنے ہیں وہ صرف ایک گروہ ہے جسے وہ حوثی کہتے ہیں۔
جب کہ یہ ایک بہت بڑا فریب ہے! اصل میں جو کچھ ہوا وہ استعماری ممالک اور ان کے علاقائی کرائے کے گروہوں کے مفادات کے لیے یمنی تیل کی لوٹ مار کو روکنا ہے کہ جس کے نتیجے میں یمنی قوم کو اس کی آمدنی سے محروم ہونا پڑا ہے۔
لہٰذا ان کا یہ دعویٰ کہ یمن کے عوام اس فیصلے سے نقصان اٹھائیں گے، غلط اور بہت بڑا فریب ہے۔
یمن کے عوام کو جس چیز نے نقصان پہنچایا ہے وہ جارحیت، اقتصادی ناکہ بندی اور حقوق کا حاصل نہ ہونا ہے، نہ کہ تیل کی چوری کی روک تھام۔
یمنی تیل کی چوری کی روک تھام سے جن لوگوں کو نقصان پہنچے گا وہ یمن کے نیشنل بینک کے چور اور وہ لوگ ہیں جن پر امریکہ نے روسی تیل پر عائد پابندی کو تھونپ رکھا ہے۔
صنعاء کی طرف سے گھریلو گیس سلنڈروں کے سلسلے میں پابندی کے نفاذ کے بارے میں ان کا دعویٰ ایک سب سے بڑی غلطی ہے جس سے انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مارب میں داعش اور اخوان کے علاوہ کس نے یمنی شہریوں کا محاصرہ جاری رکھا ہے اور کس نے ان اشیاء کو یمنی قوم کے مصائب کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا ہے؟
مغربی ممالک کا یہ استحصالی طرزعمل کوئی نئی بات نہیں ہے وہ ہمیشہ سے قوموں کے وسائل لوٹنے اپنے توسیع پسندانہ مفادات کے لئے خانہ جنگی، دہشت گردی، فکری استحصال، حقائق کو مسخ کرنے اور میڈیا وار کے ذریعے جھوٹ اور گمراہ کن کہانیاں گھڑنے کے عادی ہیں۔
جارح ممالک کے پاس یمن کے بحران کا کیا کوئی حل نہیں ہے؟ کیا یہ ممالک اپنی ذمہ داری سے بچنے کے لیے گمراہ کن اقدامات کا سہارا لیتے ہیں؟
ان ممالک کے پاس کوئی سیاسی حل نہیں ہے اور وہ صرف ان مطالبات کو مسلط کرنا چاہتے ہیں جو وہ طاقت کے ذریعے مسلط کرنے میں ناکام رہے۔ ان کا خدشہ یہ ہے کہ یمنی افواج تیل سے متعلق معاملات کو نشانہ بنائیں گی۔ اس لیے ان کی چیخیں بلند ہوتی ہے۔
یمن کو توڑنے کے ان کے منصوبے کے بارے میں یہ کہنا ضروری ہے کہ انہوں نے شدید ترین ممکنہ تنہائی کو مسلط کیا لیکن یہ اقدامات بے نتیجہ رہے ہیں۔
درحقیقت وہ چاہتے ہیں کہ معاشی ناکہ بندی کو طول دیا جائے تاکہ وہ اپنے جرائم کے نتائج سے بچ سکیں۔
یمن کے مفادات کے خلاف مغرب کا یہ معاندانہ موقف گزشتہ چند ماہ سے جاری سیاسی پیش رفت سے کیسے ظاہر ہوگا؟ میں آپ کا نقطہ نظر مزید واضح طور پر جاننا چاہتا ہوں کہ کیا امریکہ اور اس کی پیروی کرنے والے ممالک کا مؤقف صنعا کی حکومت اور سعودی حکام کے درمیان امن مذاکرات اور موجودہ صورتحال کے حل پر اثر انداز ہوگا؟ خاص طور پر چونکہ یہ مسئلہ ملازمین کے حقوق اور یمن کے قومی وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کی منصفانہ تقسیم سے متعلق ہے؟۔
بلاشبہ مغرب کا مخالفانہ موقف اثرانداز ہے، خاص طور پر چونکہ سعودی حکومت کو سعودی عرب کے مفادات کے مطابق فیصلے کرنے میں بہت کم آزادی حاصل ہے اور زیادہ تر معاملات میں وہ وائٹ ہاؤس کی خواہشات کو تسلیم کرتے ہیں۔ کیونکہ سعودی حکام 2024 کے انتخابات میں ریپبلکنز کی واپسی کے منتظر ہیں اور وہ اگلے مرحلے کے آثار ظاہر ہونے سے پہلے امریکی حکومت کے دائرہ تزویرات سے نکل جانے سے خوفزدہ ہیں۔
سعودی فریق کے ساتھ مذاکراتی معاملے کی پیچیدگی اور جمود کے حوالے سے بہت سے سوالات ہیں۔ اس مسئلے کی وجہ کیا ہے؟ اور نہ جنگ اور نہ امن کی یہ صورتحال کب تک جاری رہے گی؟
میرے نقطہ نظر سے اس جمود اور پیچیدگی کا تعلق نیٹو کی روس کے ساتھ جنگ اور اگلے سال ہونے والے امریکی انتخابات کے نتائج سے ہے۔ اس الیکشن کے نتائج سے امریکہ کی داخلی صورت حال بدل جائے گی اور یہ سعودیوں کے طرز عمل میں بھی ظاہر ہوگی۔
جنوبی یمن میں حالات سازگار نہیں ہیں۔ کیونکہ گزشتہ دنوں یمن کے اس حصے کو تقسیم کرنے کے منصوبوں کی باتیں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔
جارح دشمنوں کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے کنٹرول میں آنے والے ان علاقوں میں حالات کی سمت کیا ہے اور صنعاء کی حکومت نے ان منصوبوں کے بارے میں کیا موقف اختیار کیا ہے؟
جنوبی صوبوں میں جارحیت پسندوں کے پاس دو طریقے ہیں:
1۔ ایک نقطہ نظر جو ان علاقوں کو ٹکڑوں میں بانٹنے کی پالیسی کو زبردستی مسلط کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ تاہم، اس نقطہ نظر کے تباہ کن نتائج ہیں.
2: ایک ایسا نقطہ نظر جو ان علاقوں میں حالات کو اب کی طرح برقرار رکھے اور حالات کو اس طرح منظم کرے کہ عدم استحکام جاری رہے اور یمنی شہری آرام محسوس نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ صنعاء حکومت کو سعودی ساختہ کارٹونی حکومت کی باغی حکومت کے طور پر پیش کریں۔ ایک ایسی غیر مقبول کارٹونی حکومت جو سعودی عرب کے ایک ہوٹل میں قائم کی گئی تھی!
اس حقیقت کے باوجود کہ یہ دونوں نقطہ نظر مجرمانہ ہیں، جنگ کے منافع خور اب بھی ان دو اختیارات میں سے کسی ایک کے انتخاب میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
اس سلسلے میں صنعاء کا انتخاب تین نقطوں پر مرکوز ہے:
پہلا: داخلی اقتصادی، سماجی اور عسکری صورت حال کو بہتر بنانا۔ دوسرا: سعودی عرب کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی کے باوجود دنیا کے ساتھ رابطے کے دروازے کھولنا۔
تیسرا: عالمی سماجی حلقوں کو ان علاقوں سے آگاہ کرنا جن پر متحدہ عرب امارات اور مغربی ممالک کا قبضہ ہے۔
انشاء اللہ یہ تینوں طریقے کارآمد ثابت ہوں گے۔