حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اپنی تقریر میں کہا کہ قرآن کی بے حرمتی کے مرتکب کا تعلق موساد سے ہے۔ 

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب کے آغاز میں سویڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سویڈن میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے والا شخص موساد سے رابطے میں تھا اور اس کا مقصد مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان تفرقہ اور منافرت پیدا کرنا ہے۔

حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہر آزاد اور باعزت شخص کو اس جرم کی تمام قانونی طریقوں سے مذمت کرنی چاہیے۔ عیسائی علماء کی طرف سے قرآن پاک کو جلانے کی مذمت نے فتنہ کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کے ردعمل میں علاقے کے عوام کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے کی اقوام کو چاہیے کہ وہ اپنی حکومتوں سے قرآن مجید کو جلانے کے معاملے میں مضبوط موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کریں۔ 

اس سلسلے میں روس کے مؤقف کا ذکر کرتے ہوئے حسن نصر اللہ نے مزید کہا کہ قرآن کریم کو جلانے کے حوالے سے روس کے قابل ذکر موقف نے مغربی ممالک کو انسانی حقوق کے حوالے سے ٹف ٹائم دیا ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں 33 روزہ جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ ہر لحاظ سے ایک جنگ تھی اور لبنان اور خطے کی تاریخ کا ایک بہت اہم واقعہ تھا۔ اس جنگ نے پچھلے اور آنے والے سالوں میں لبنان اور خطے کی تقدیر کا تعین کیا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ یہ جنگ مشرق وسطیٰ کے نئے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکہ کے ہتھیاروں میں سے ایک تھی جس کا ہدف علاقے کے ممالک سے غاصب اسرائیل کو تسلیم کروانا، فلسطینی اراضی، گولان اور لبنان کی مقبوضہ سرزمینوں کو نقصان پہنچانا اور اسرائیل کو امریکہ کے زیر اثر ایک علاقائی طاقت کے طور پر دکھانا تھا۔

لبنان کی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ اس جنگ میں دشمن نے لبنان کی مزاحمت کو ختم کرنا اور اسے اسرائیل اور امریکہ کی شرائط کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہا لیکن مقاومت ختم نہیں ہوئی بلکہ جیت گئی اور لبنان نے سر نہیں جھکایا۔

حسن نصراللہ نے مزید کہا کہ 33 روزہ جنگ کامیابی نے لبنان کے لیے زبردست مزاحمت اور حمایت پیدا کی جو کہ پچھلے 17 سالوں سے جاری ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کے اندرونی حلقوں میں لبنان، غزہ، مغربی کنارے اور جنین کے خلاف اس حکومت کی کمزور پوزیشن اور شکست پر اتفاق پایا جاتا ہے۔

 انہوں نے لبنانی عوام کے احساس امن اور لبنان کے تمام حصوں میں ان کی وسیع پیمانے پر موجودگی جب کہ غاصب صیہونی آبادکاروں میں پائے جانے والے خوف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شمالی مقبوضہ فلسطین میں قابض آبادکاروں کے خوف کا ایک بڑا سب خود اسرائیلی میڈیا ہے جو اس وقت انہیں نفسیاتی طور پر ہمارے خلاف ایک جنگ میں ماحول میں دھکیل چکا ہے۔ 

نصراللہ نے مزید کہا کہ مزاحمت نے ترقی اور پیش رفت حاصل کی ہے اور 33 روزہ جنگ کے بعد سے غاصب اسرائیلی دشمن کو روکنے کی اپنی صلاحیت کو مزید مضبوط کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ لبنان کی حمایت کا ہدف "فوج، قوم اور مزاحمت" کے سہ رخی مساوات سے حاصل ہوتا ہے۔

 نصر اللہ نے جنین کی حالیہ جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جنین کی جنگ میں وسیع آپریشن کا دشمن کا ہدف ڈرامائی فتح اور ڈیٹرنس پاور شو کرنا تھا لیکن اس کے برعکس جنین کیمپ کے لوگوں کے قیام کی بدولت مزاحمتی جوانوں کی استقامت اور ہتھیار نہ ڈالنے سے خدا نے ان کا دفاع کیا اور ان کی حفاظت کی۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ جنین پر حملے کی ناکامی کی وجہ فلسطینی مزاحمتی کارروائیوں کا اسی وقت جاری رہنا تھا جب جنین اور پھر مغربی کنارے پر حملہ کیا گیا تھا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ مغربی کنارے میں رہنے والے فلسطینیوں کو نہ صرف یہ یقین ہے کہ مغربی کنارہ آزاد ہو جائے گا بلکہ وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل تباہ ہونے والا ہے۔ اور اس یقین سے مزاحمت کے جاری رہنے کے لیے کافی امیدیں پیدا ہوتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مغربی کنارے میں شہادتیں ہوئی ہیں لیکن یہ معمول کی بات ہے۔کیونکہ ہم غاصب اور وحشی دشمن کے ساتھ میدان جنگ میں ہیں۔ لہذا ہمیں جو اس بات کو یقینی بنانا چاہیےکہ ہمیں کسی صورت دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالنا۔

لیبلز