مہر نیوز ایجنسی، سیاسی ڈیسک؛ رواں سال فروری میں صدر رئیسی نے بیجنگ کا دورہ کیا اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے حوالے سے چینی صدر کے ساتھ مذاکرات کیے۔ اس دورے کے ایک مہینے بعد ایرانی قومی سلامتی کے مشیر علی شمخانی نے چین کا دورہ کیا اور سعودی ہم منصب کے ساتھ اہم مذاکرات کے ذریعے ان کوششوں کو آگے بڑھایا۔
مارچ کو دونوں ممالک کے سیکورٹی کونسل کے سربراہان نے سات سال کے دوبارہ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے معاہدے پر دستخط کیا۔ اس موقع پر چینی حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کے سیاسی دفتر کے سربراہ وانگ ئی بھی موجود تھے۔ اس معاہدے کے دو مہینے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے ملاقات کی اور سفارتی مشنز کے افتتاح کے سلسلے میں ابتدائی مراحل انجام دیے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے متعلقہ وفود نے ایک دوسرے کا سفر کیا اور سفارتی مشنز کی بحالی کے حوالے سے ضروری کاموں کو انجام دیا۔
ایران نے علی رضا عنایتی کو ریاض میں اپنا سفیر مقرر کردیا۔ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے ٹیلیفونک رابطے کرکے بیجنگ معاہدے کے سلسلے میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا۔ ایرانی وزیرخارجہ امیر عبداللہیان نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں ہونے والی پیشرفت پر خوشی کا اظہار کیا اور سعودی ہم منصب فیصل بن فرحال کو یقین دلایا کہ ایران سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور سفارت خانہ کھولنے کے لئے سنجیدہ ہے۔
منگل کو ریاض میں ایرانی سفارتخانے پر دوبارہ ایرانی پرچم لہرایا گیا اس موقع پر قونصلر، پارلیمانی اور ایرانی تارکین وطن کے امور میں وزیرخارجہ کے معاون علی رضا بیکدلی اور مشن کے نگران حسن زرنگار بھی موجود تھے جبکہ سعودی وزارت خارجہ کے معاون علی الیوسف اور دیگر اعلی حکام نے تقریب میں شرکت کی۔ اس موقع پر ایران کا قومی ترانہ پڑھا گیا اس کے بعد سفارت خانے پر باقاعدہ فعالیت شروع کردی۔
ذرائع کے مطابق سعودی وزیرخارجہ فیصل بن فرحان مستقبل قریب میں تہران کا دورہ کریں گے۔ وہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کا اہم پیغام ایرانی صدر رئیسی کو پہنچائیں گے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بحال ہونے سے خطے میں موجود غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا اور امن و امان کے قیام کے لئے مدد ملے گی۔ دونوں ممالک نئے سرے سے تعلقات کا آغاز کررہے ہیں۔ اس پیشرفت کے نتیجے میں خطے کے دوسرے ممالک پر بھی نمایاں اثر پڑے گا۔ ان حالات میں جس کا سب سے زیادہ نقصان ہوگا وہ صہیونی حکومت ہے اور حقیقی فتح امت مسلمہ کی ہوگی۔
اس سلسلے میں ہونے والی تازہ ترین پیشرفت کے مطابق ایرانی بحریہ کے سربراہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ مل نیا بحری اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس اتحاد میں پاکستان، بھارت اور عراق بھی شامل ہونے کے بعد اس کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ خطے کے ممالک نے یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لی ہے کہ خطے میں امن قائم کرنے کا واحد راستہ باہمی تعاون اور مصالحت ہے۔
ایران اور سعودی عرب مختلف شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کرسکتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ذرائع ابلاغ میں دونوں ممالک کے درمیان پرامن ایٹمی تعاون پر بھی مذاکرات کی خبریں گردش کررہی ہیں۔ نور نیوز نامی ویب سائٹ کے مطابق اسرائیل ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعاون سے بہت پریشان ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اور تعاون کے نتائج اور اثرات کے بارے میں پارلیمنٹ کے نائب سربراہ حجت الاسلام مجتبی ذوالنوری سے ہونے والی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے کی موجودہ حکومت کی پالیسی سے ایران پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں؟
اسلامی جمہوری ایران کی پالیسی یہ ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا جائے۔ ہمارے لئے پہلے ہمسایہ ممالک اہم ہیں۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دور کے ممالک کے ساتھ تعلقات کے خواہاں نہ ہوں۔ اس وقت ایران مشرقی اور مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ہمسایہ ممالک میں سے سعودی عرب ہمارے لئے زیادہ اہم ہے کینکہ سعودی عرب مسلمان ممالک پر زیادہ اثر رسوخ رکھتا ہے اور تیل کے وسیع ذخائر بھی اس کے پاس ہیں۔ دوسرے ممالک کو کثیر امداد فراہم کرنے کی وجہ سے سعودی کا حلقہ اثر بھی وسیع ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بحال ہونے پر دوسرے ممالک نے خوشی کا اظہار کیا۔
جی ہاں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال ہونے سے ایران کے ساتھ ساتھ خطے کے دوسرے ممالک کا بھی فائدہ ہوگا۔ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے ساتھ ہی مصر اور دوسرے عرب ممالک نے بھی ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا شروع کیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ ممالک سعودی عرب کے زیر اثر ہیں۔
اگرچہ سعودی عرب میں مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ یہی شدت پسندی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی راہ میں حائل ہے۔ ماضی میں سعودی عرب نے غیر معقول اقدامات کئے ہیں لیکن دونوں ممالک پھر بھی مسلمان ہیں۔ ہمارے تعلقات مسلمانوں کے لئے بہت ضروری ہیں۔ سعودی عرب میں حرمین شریفین ہیں جس کی وجہ سے اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ دونوں ملکوں کے خراب تعلقات کی وجہ سے ہم حج جیسا فریضہ نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔
دونوں ملکوں کے تعلقات بحال ہونے سے امریکہ اور صہیونی حکومت تشویش میں مبتلا ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟
ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے ہی امریکہ اور اسرائیل ایران کے مخالف ہیں۔ ان کی تشویش ہمارے فائدے میں ہے۔ اگر سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر نہ ہوں تو خطے میں دشمنوں کے لئے ہمارے خلاف محاذ کھولنے کی جگہ مل جائے گی۔ سعودی عرب کے ساتھ روابط مستحکم ہونے کے بعد خطے میں ایران کے خلاف فضا ختم ہورہی ہے۔ امریکہ اور صہیونی حکومت خطے کے ممالک کے ذہنوں میں ایران کے بارے میں خوف پیدا کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ اگر خطے کے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر ہوجائیں تو ایک دوسرے کو بہتر اور قریب سے سمجھیں گے جس سے ایران اور خطے کے سب ممالک کا فائدہ ہوگا۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان تیل اور گیس کے شعبوں میں تعاون کے کیا اثرات ہوں گے؟
ایران اور سعودی تیل اور گیس کے شعبے میں تعاون بڑھائیں تو اوپیک اور دوسرے بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے کا ساتھ دے سکیں گے اس طرح دونوں مل کر مشترکہ مفادات کا بہتر تحفظ کرسکیں گے۔ دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جس سے نظر چرانا ممکن نہیں ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات سے مغربی ممالک اور امریکہ کو کیا پیغام جاتا ہے جنہوں نے کئی سال مذاکرات کے بعد بھی اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا ہے؟
ایران اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی تعاون بہت ضروری ہے۔ ہم نے متعدد بار امریکہ اور مغربی ممالک کو آزمایا لیکن انہوں نے دشمنی نہیں چھوڑی اور اب بھی ایران پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے درپے ہیں۔ ہمیں سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اسی طرح خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہئے جس سے اقتصادی دباو میں کمی آئے گی۔
صدر رئیسی اور دوسرے اعلی حکام اس حوالے سے دن رات کوشش کررہے ہیں اور ہم ان کے اثرات کو بھی دیکھ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی کامیاب پالیسی پر ہمیں شکرگزار ہونا چاہئے۔ ہمیں اسی پالیسی کی وجہ سے خارجہ سطح پر کامیابیاں مل رہی ہیں۔ حکومت کی جانب سے کثیر الجہتی پالیسی اختیار کرنے کی وجہ سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنے میں بھی آسانی ہورہی ہے۔