مہر خبرساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ سوڈان میں جاری کشیدگی اور صہیونی حکومت کی مداخلت نے کئی سوالات جنم دیے ہیں۔ معروضی حالات کے مطابق تل ابیب اور صہیونی جاسوسی ادارے براعظم افریقہ کے اس بڑے ملک کی تقسیم کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ سوڈان شروع سے ہی صہیونیوں کے لئے اہمیت کا حامل رہا ہے اسی وجہ ہر اہم موڑ پر صہیونی حکومت نے اس ملک کے معاملات میں مداخلت کی ہے۔ حالیہ برسوں میں اس حوالے سے تیزی دیکھی جارہی ہے۔ مسلح افواج اور پیرا ملٹری فورسز کے درمیان شدید جھڑپوں کے باعث صہیونی حکومت کے سوڈان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کو جھٹکا لگا ہے۔ اسرائیل سوڈان کو اپنے دشمنوں کی صف سے نکال کر ایک کمزور ملک میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تاکہ آسانی کے ساتھ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرسکے۔
مہر نیوز نے سوڈان کی صورتحال اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی مداخلت کے حوالے سے معروف عرب مبصر سہام محمد سے خصوصی انٹرویو لیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
سوڈان کی سیاسی صورتحال عام لوگوں کے لئے نہایت تکلیف دہ ہے۔ مسلح افواج اور پیراملٹری فورسز کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے ہلاکتوں اور نقصانات میں اضافہ ہورہا ہے، سوڈان کی صورتحال کے بارے میں آپ کیا تجزیہ کرتے ہیں؟
جنرل البرہان اور جنرل حمیدتی کے تعلقات 2003 سے ہیں۔ سابق صدر عمر البشیر کے دور میں جنرل حمیدتی دارفور میں ایک مسلح گروہ جنجوید کی قیادت کرتے تھے۔ اس گروہ کا دوسرے گروہ سے تنازعہ تھا۔ جنرل البرھان اس زمانے میں مسلح افواج کی طرف سے دارفور میں تعیینات تھے۔ 2015 میں دونوں اعلی فوجی رہنما یمن پر چڑھائی کرنے میں ایک صفحے پر تھے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ جنرل البرھان اس دستے کی نگرانی کررہے تھے جس کی قیادت جنرل حمیدتی کے پاس تھی۔
2019 میں جب اقتصادی مشکلات کی وجہ سے جمہوریت کے حق میں مظاہرے ہوئے تو صدر عمر البشیر کے خلاف فوجی بغاوت میں اور فوجی حکومت کی تشکیل سے دونوں کے تعلقات مزید مستحکم ہوئے۔ اس کے بعد جنرل البرھان فوجی نگران کمیٹی کے سربراہ اور جنرل حمیدتی صدر کے معاون بن گئے۔ دونوں کے درمیان ملکی معاملات پر اختلاف پیدا ہونے لگے یہاں تک کہ مئی 2021 میں ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر آمادہ ہوگئے لیکن اس وقت کے سوڈانی وزیر اعظم عبداللہ حمدوک نے مداخلت کرکے بحران کو حل کردیا۔
اکتوبر 2021 میں عبداللہ حمدوک کی گرفتاری کے بعد فوجی نگران کمیٹی نے ملکی معاملات اپنے ہاتھ لے لیے۔ دو فوجی جنرل البرھان اور حمیدتی کا ان معاملات میں ہاتھ تھا۔ 5 دسمبر کو فوج کو سیاست سے بے دخل کرکے سویلین حکومت کی تشکیل کے معاہدے پر دستخط کے وقت دونوں فوجی رہنماوں کے درمیان اختلاف مزید شدت اختیار کرگئے۔ جنرل حمیدتی نے ایک بیان میں واضح کیا کہ سویلین حکومت کی تشکیل اور فوج کو سیاسی معاملات سے علیحدہ کرنے کا اعلان 2021 میں فوجی سربراہ کی جانب سے جمہوری حکومت کو ختم کرنے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ اس بیان کے بعد دونوں جنرلوں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ جنرل حمیدتی اور جنرل البرھان کے درمیان مختلف مسائل پر اختلافات موجود ہیں جن میں ملکی داخلی صورتحال، خارجہ پالیسی اور چاڈ جیسے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات شامل ہیں۔ ان اختلافات کی وجہ سے بیرونی ممالک کی ثالثی کی کوششیں بھی ناکام ثابت ہوئیں۔
13 اپریل کو پیراملٹری فورسز کے جوان فوجی بیرکوں میں داخل ہوگئے جس پر جنرل البرھان نے شدید ردعمل دکھایا اور 15 اپریل سے دونوں کے درمیان مسلح تصادم شروع ہوا۔
سوڈان میں اس وقت اقتدار کی خطرناک جنگ جاری ہے۔ امریکہ کو ایشیا میں شکست کے بعد اپنے مفادات کی خاطر سوڈان سے امریکہ اور دیگر ممالک کس طرح فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟ امریکہ اور اس کے اتحادی سوڈان کے حالات کو اپنے حق میں کیسے استعمال کرسکتے ہیں؟
دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ بیرونی طاقتوں کے لئے سوڈان میں مداخلت اب بہت آسان ہوگئی ہے۔ ایشیا سے نکلنے کے بعد امریکہ سوڈان میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ سوڈان میں امریکہ کے مقابلے میں کوئی عالمی طاقت موجود نہیں ہے۔ ملک کی جماعتیں بھی امریکہ سے تصادم کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔ سوڈان کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہاں سے سعودی عرب اور یمن بھی نزدیک ہیں۔ نام نہاد عالمی امن کے نام پر مختلف ہمسایہ ممالک میں تعیینات افواج کے ذریعے اس ملک کی نگرانی کرسکتا ہے۔
بین الاقوامی جریدے فارن پالیسی نے سوڈان کے بحران اور خانہ جنگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکی پالیسی کی وجہ سے سوڈان میں جنگ کے شعلے مزید بھڑک سکتے ہیں کیونکہ امریکہ اس کے ذریعے ایک جمہوری حکومت کی تشکیل کا خواہاں ہے۔ امریکی دوغلی پالیسی کی وجہ سے مسلح افواج اور پیراملٹری فورسز کے درمیان تصادم شروع ہوا ہے۔ سوڈان کے حالات یمن جیسے ہیں۔ مسلح افواج نے خرطوم پر وسیع حملے کئے ہیں گویا خرطوم میں مسلح افواج کو برتری حاصل ہے کیونکہ 2003 سے اب تک سوڈانی فضائیہ نے جنگوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
2019 کے آئین میں انتقال اقتدار کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے بلکہ اصرار کیا گیا ہے کہ انتقال اقتدار کے دوران 21 مہینے حکومت فوج کے پاس رہے گی اس کے بعد سویلین حکومت آسکتی ہے۔ امریکہ فی الحال سوڈان میں من پسند سویلین حکومت تشکیل دینے کا منصوبہ بنارہا ہے۔
صہیونی حکومت کی ثالثی اور سوڈان کے ساتھ اس کے تعلقات کے قیام کے درمیان کیا رابطہ ہے؟
ویب سائٹ اکسیوس نے صہیونی حکام کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکی وزارت خارجہ اور وائٹ ہاوس کی جانب سے اسرائیل سے اپیل کی گئی ہے کہ سوڈانی جنرلوں پر دباو ڈالنے اور جنگ بندی کو قبول کرنے کے لئے عملی کردار ادا کرے۔ امریکہ کے خیال میں اسرائیل سوڈان کی داخلی سیاست میں اثر و رسوخ رکھتا ہے اسی وجہ سے تل ابیب سے اپیل کی گئی ہے کہ سوڈان کو فوجی بغاوت سے پہلے والی حالت پر لے جائے۔ ذرائع کے مطابق صہیونی حکام نے سوڈان میں متحارب گروہوں میں سے کسی کی جانب داری اور ثالثی سے انکار کردیا ہے۔
صہیونی حکام نے سوڈان میں جمہوری حکومت کی تشکیل میں ناکامی اور سوڈان اور اسرائیل کے درمیان صلح نامے پر اتفاق نہ ہونے پر پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل سوڈان کے حالات کا نزدیک سے جائزہ لے رہا ہے۔ اسرائیل جنگ کے دونوں فریقین کے ساتھ رابطے میں ہے۔ صہیونی وزارت خارجہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے لئے جنرل البرھان جبکہ خفیہ ادارے موساد اور جنرل حمیدتی کے درمیان پس پردہ روابط ہیں۔ صہیونی حکام نے کہا ہے کہ دونوں فوجی رہنماوں کے ساتھ تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے سوڈان میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لئے کوشش کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق تل ابیب سوڈان میں جمہوری حکومت کی تشکیل کے لئے پیشرفت کے حوالے سے مطمئن تھا لیکن اچانک جھڑپیں شدت اختیار کرجانے سے یہ امیدیں ختم ہوگئیں۔
کیا امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے باعث سوڈان خانہ جنگی سے تباہ ہوجائے گا؟
صہیونی حکومت سوڈان کو تباہ کرنے کے بجائے اس سے تعلقات قائم کرکے خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے پریشان ہے۔ اس وقت فریقین کے درمیان کشیدگی میں اضافے کی وجہ سے بحران مزید بڑھ گیا ہے اسی لئے بعض علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں اس صورتحال سے فائدہ لینے کی کوششوں میں ہیں۔ امریکہ اپنے فائدے کی خاطر سوڈان میں جمہوری حکومت کی تشکیل کا منصوبہ پیش کرسکتا ہے البتہ اس صورت میں قائم ہونے والی حکومت سوڈان سے زیادہ امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کا خیال رکھے گی۔ سوڈانی عوام کے مفادات کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔