مغربی ایشیاء کے معروف تجزیہ نگار نے کہا کہ سیاسی نظام کے تحت شام کی عرب لیگ میں واپسی سے، ایک بار پھر مزاحمت کی حقانیت سب پر عیاں ہو گئی۔

مہر خبررساں ایجنسی سے گفتگو میں سید رضا صدرالحسینی نے شام کی عرب لیگ میں واپسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ  شامی قوم اور سیاسی نظام کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کا آغاز ہوتے ہی بدقسمتی سے عرب ممالک کے درمیان اتحاد و یکجہتی کی بات کرنے والے کچھ ممالک نے شام کو عرب لیگ سے نکال کر شامی قوم اور حکومت سے اپنا انتقام لیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ درحقیقت غاصب صہیونی حکومت کے ساتھ شامی قوم کے مقابلے کے خلاف عرب ممالک کی ناراضگی اور غصہ برسوں بعد ظاہر ہوا اور اتحادیہ عرب سے شام کی رکنیت کو معطل کر دی۔

مغربی ایشیاء کے ماہر تجزیہ نگار نے مزید کہا کہ 12 سال کی طویل مدت کے بعد شام کی عرب لیگ میں واپسی سے معلوم ہوا کہ شام غاصب صہیونی حکومت کے خلاف جدوجہد کے فرنٹ لائن پر رہنے اور عرب لیگ کو حقیقی شناخت دینے والے ممالک میں سے تھا۔

صدرالحسینی نے کہا کہ گزشتہ 12 سالوں کے دوران، جب عرب لیگ میں شام کی نشست خالی تھی، لیگ اپنا اثر و رسوخ اور حقیقی شناخت کھو بیٹھی اور بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر مساوات میں اس کا اثر ورسوخ کم ہو گیا تھا، لہٰذا عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب نے شام سے عرب لیگ کی مضبوطی اور تشخص کو برقرار رکھنے کیلئے لیگ میں واپسی کی درخواست کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ سعودی وزیر خارجہ نے دمشق کے دورے کے دوران شام سے لیگ میں واپسی کی درخواست کی اور سوریہ کی حکومت نے نیز کچھ شرائط کی بنیاد پر لیگ میں واپسی کا فیصلہ کیا۔

مغربی ایشیاء کے ماہر تجزیہ نگار نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ اس دعوت اور سیاسی طور پر سوریہ کی لیگ میں واپسی سے ایک بار پھر مزاحمت و مقاومت کی حقانیت سب پر عیاں ہوئی۔

صدرالحسینی نے کہا کہ ایران اور شام کے اسٹراٹیجک تعلقات کے پیش نظر، سوریہ کو اپنی حالیہ پوزیشن سے جبھۂ مقاومت کی علاقائی اور بین الاقوامی حقیقتوں سے دنیا کو آگاہ کرنا چاہیئے اور سوریہ کی حالیہ فتح درحقیقت ایران اور جبھۂ مقاومت کی مشترکہ فتح ہے۔