مہر خبررساں ایجنسی، انٹرنیشنل ڈیسک؛اگرچہ 2024 کے نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات بہت دور ہیں تاہم ڈیڑھ سال پہلے ہی ڈیموکریٹک اور ریپبلکن امیدواروں نے انتخابی تیاری شروع کردی ہے۔ توقع کے عین صدر جوبائیڈن نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔ دوسری طرف سابق ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی انتخابی دھنگل میں شرکت کا اعلان کرکے انتخابات کا بازار مزید گرم کردیا ہے۔ موجودہ اور سابق صدر دونوں مختلف وجوہات کی بناپر اپنی عوامی مقبولیت کو کھوچکے ہیں۔
این بی سی نیوز کے تازہ ترین سروے میں، امریکیوں کی اکثریت 2024 کے صدارتی انتخابات میں بائیڈن یا ٹرمپ کی مخالفت کررہی ہے۔ یہ سروے 14 سے 18 اپریل تک کیا گیا جس میں ایک ہزار افراد نے شرکت کی اور 70 فیصد سروے کے شرکاء نے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ بائیڈن مزید چار سال کے لئے ملک کا صدر بنے۔ ڈیموکریٹک ووٹروں کی تعداد تقریبا 51 فیصد تھی۔ جبکہ ایک تہائی ری پبلکنز سمیت 60 فیصد نے کہا کہ وہ اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی شرکت کی مخالفت کرتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی عوام اور یہاں تک کہ بائیڈن اور ٹرمپ کی جماعتیں بھی اگلے چار سالوں میں اوول آفس دیکھنے سے کیوں مخالفت رہی ہیں۔
بائیڈن کیوں نہیں؟
بائیڈن نے منگل کے روز اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں رائے دہندگان سے کہا گیا کہ وہ عہدہ سنبھالنے کے بعد کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے انہیں مزید وقت دیں اور معمر ترین صدر کی مدت ملازمت میں مزید چار سال کی توسیع کے خدشات کو بالائے طاق رکھیں۔
یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ان کے دوبارہ جیتنے کے امکانات کم ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اس سے قبل این بی سی نیوز کے ایک سروے کے علاوہ، نیویارک پوسٹ کے حالیہ سروے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ "بائیڈن کا مستقبل تیزی سے تاریک ہورہا ہے۔ امریکی اخبار کے مطابق تقریبا دو تہائی ڈیموکریٹک ووٹرز (64 فیصد) چاہتے ہیں کہ پارٹی 2024 کے انتخابات میں صدارتی امیدوار کے طور پر کسی اورکا انتخاب کرے۔
نیو یارک پوسٹ کے مطابق جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے 2024 میں جوبائیڈن کے علاوہ کسی اور امیدوار کو کیوں ترجیح دی ہے تو 33 فیصد نے ان کی بڑھتی عمر اور 32 فیصد نے ان کی خراب کارکردگی کی طرف اشارہ کیا۔ 12 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ صرف کسی نئے کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ 10 فیصد کا خیال ہے کہ بائیڈن کافی ترقی پسند نہیں ہیں۔ شرکاء میں سے صرف 4 فیصد کا خیال تھا کہ وہ دوبارہ انتخاب جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
80 سالہ بائیڈن بھی جانتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی عمر ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے اسی لئے اب وہ امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں 85 سال کی عمر تک جوبائیڈن صدارتی عہدے پر فائز رہیں گے۔ حالیہ برسوں میں وہ ذہنی اور جسمانی مسائل کا بھی سامنے کرچکے ہیں۔ لہٰذا مقبولیت میں اس کمی کی ایک بڑی وجہ بائیڈن کی ذہنی اور جسمانی ڈیمنشیا ہے۔
اگرچہ بائیڈن نے 2017 میں اپنی کتاب 'فادر، پرومس می' میں اعتراف کیا تھا کہ وہ بہت کچھ کرتے ہیں، انہوں نے لکھا کہ 'میں ایک غلطی کرنے والی مشین ہوں' لیکن اتنی غلطی ایک صدر کے وقار میں نہیں ہے۔ ہوائی جہاز میں گرنا، کسی تقریر کے بعد بھول جانا، ٹریک کھونا اور امریکی نائب صدر سے لے کر ملکہ برطانیہ اور افغانستان کے سابق صدر تک کے عہدوں اور نام لینے میں زبانی غلطی ان کو درپیش نفسیاتی بیماری کی علامت ہے۔
تائیوان اور یوکرائن میں کی جانے والی غلطیوں نے جوبائیڈن کی دو سالہ صدارتی ناقص کارکردگی پر جلتی پر تیل کا کام کیا۔ دونوں ممالک کے بحران نے امریکہ کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیا جس پر پہلے ہی 120 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے۔
گزشتہ 40 سالوں کی نسبت ملک میں افراط زر کی شرح بھی غیر معمولی حد کو چھورہی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ بے مثال افراط زر کا شکار ہے اور لوگ معاشی صورتحال سے شدید پریشان ہیں، بائیڈن اور یہاں تک کہ ان کی حمایت کرنے والے سیاسی حلقوں کے لیے بھی امید کی کوئی کرن نظر نہیں آرہی ہے۔ چنانچہ وسط مدتی کانگریس کے انتخابات میں ہوا، ان نتائج نے ڈیموکریٹک ووٹوں کی تعداد میں کمی اور حکمراں جماعت کی مقبولیت کو ظاہر کیا ہے، اگرچہ اس نے سینیٹ میں اکثریت برقرار رکھی، لیکن ایوان نمائندگان میں نشستوں کی اکثریت ریپبلکن پارٹی کا حصہ بن گئی۔
اب تک بائیڈن خوش قسمت ہیں کہ ان کے سامنے صرف دو حریف ہیں؛ امریکی مصنفہ ماریان ولیمسن اور جان ایف کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر۔ ان دونوں کے انتخابات جیتنے کے امکانات کم ہیں۔
ٹرمپ کیوں نہیں؟
اس سے قبل این بی سی نیوز کے ایک سروے کے علاوہ ایسوسی ایٹڈ پریس اور یونیورسٹی آف شکاگو ریسرچ سینٹر کے ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکیوں میں ٹرمپ کی مقبولیت بہت کم ہے۔ سروے کے مطابق تقریبا 70 فیصد امریکی اور خاص طور پر 44 فیصد ریپبلکنز نہیں چاہتے کہ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں واپس آئیں۔ 93 فیصد ڈیموکریٹس اور 63 فیصد آزاد امیدوار نہیں چاہتے کہ ٹرمپ صدارتی انتخاب لڑیں۔
اپنے چار سالہ دور میں ٹرمپ کو متعدد بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا، جن میں دنیا میں قانونی حیثیت کا بحران بھی شامل ہے، جن میں کانگریس کی فتح سے لے کر بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، یونیسکو اور ایران کے ساتھ عالمی جوہری معاہدہ جیسے اہم اور معروف معاہدوں سے دستبرداری شامل ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ پہلے امریکہ صدر ہیں جن پر باقاعدہ فرد جرم عائد کرکے مقدمہ چلایا گیا۔ ٹرمپ کی عمر بھی ان کی گرتی ہوئی مقبولیت کا ایک سبب ہے۔ وہ اب 76 سال کے ہوچکے ہیں اور اگر وہ وائٹ ہاؤس میں دوبارہ داخل ہوتے ہیں تو وہ 80 کی دہائی کو عبور کر لیں گے۔
ٹرمپ کو سب سے بڑا چیلنج درجنوں ریپبلکن امیدواروں کی جانب سے درپیش ہے جو ان کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ممکنہ ڈیموکریٹک امیدواروں کی کم تعداد کے باوجود ریپبلکنز امیدواروں کا ہجوم دیکھنے آرہا ہے جوکہ آخری اطلاعات کے مطابق 14 تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں سے آٹھ امیدوار دوسروں سے زیادہ فعال نظر آتے ہیں جن میں ڈونلڈ ٹرمپ، نکی ہیلی، مائیک پینس، لز چینی، سینیٹر ٹیڈ کروز، سینیٹر ٹم سکاٹ، گورنر گلین ینگ کین اور رون ڈی سینٹس شامل ہیں۔
مذکورہ بالا آٹھ امیدواروں کے علاوہ، پارٹی میں مزید چھ ممکنہ امیدوار ہیں، جن کے انتخاب جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں. ان امیدواروں میں میری لینڈ کے گورنر 66 سالہ لیری ہوگن، ٹیکساس کے پہلے گورنر 65 سالہ گریگ ایبٹ، جنوبی ڈکوٹا کی پہلی خاتون گورنر 51 سالہ کرسٹی نوم، 48 سالہ کرس سونونو، 70 سالہ فلوریڈا کے سینیٹر رک اسکاٹ اور ارب پتی کاروباری شخصیت اور کتاب "بیداری" کے مصنف یوک راماسوامی شامل ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ٹرمپ کے سب سے بڑے حریف فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹس ہیں جو نسبتا مقبول ہیں۔ ڈی سانٹس نے ٹرمپ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے سخت محنت کی ہے۔ ابتدائی مرحلے میں ٹرمپ کی جگہ لینے کے لئے ان کو ایک مضبوط امیدوار سمجھا جارہا ہے۔ انہوں نے وسط مدتی انتخابات میں پندرہ لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے دوبارہ انتخابات جیت لیا ہے جو چار دہائیوں میں ریاست میں سب سے زیادہ ہے۔
خلاصہ کلام
حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں متعدد جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ بائیڈن اور ٹرمپ کے 2024 کے انتخابات میں وائٹ ہاؤس میں دوبارہ داخل ہونے کا زیادہ امکان نہیں ہے، انہوں نے گزشتہ سال کانگریس کے وسط مدتی انتخابات میں اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا۔
کانگریس کے وسط مدتی انتخابات کے دوران امریکی عوام نے ثابت کیا کہ اگرچہ وہ بائیڈن اور ڈیموکریٹس سے مایوس ہیں لیکن وہ ریپبلکنز کے لئے بھی زیادہ نیک خواہشات نہیں رکھتے ہیں جس کے ٹرمپ مرکزی امیدوار ہیں، واحد امریکی صدر جس نے مختصر مدت کے لئے عہدہ سنبھالا اور دنیا میں بحران کھڑا کیا، داخلی بغاوت اور کانگریس پر حملے کا سبب بنا۔
امریکن جرنل آف دی ہل نے لکھا ہے کہ امریکہ کو 2024 کے انتخابات میں بائیڈن اور ٹرمپ کے علاوہ مستقبل کے صدارتی آپشن کی ضرورت ہے۔ دریں اسی لئے ایک نئے اعتدال پسند امیدوار کے انتخاب جیتنے کے امکانات زیادہ ہوسکتے ہیں۔
دونوں پارٹیوں اور دونوں سابق صدور کی ناقص کارکردگی کے علاوہ بڑھتی عمر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دونوں میں سے کوئی بھی انتخابات جیتنے کی صورت میں اپنی صدارتی مدت مکمل کرنے تک اسی سال کے ہوجائیں گے۔ یاد رہے کہ امریکی تاریخ میں صدر کے عہدے پر کام والوں کی اوسط عمر 45 سال سے 55 سال تک رہی ہے۔ سروے اور عمومی جائزے کے مطابق پچاس سال کے صدر کو اس عہدے کے لئے موزون سمجھا جاتا ہے۔