مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، صوبہ مشرقی آذربائیجان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای فرمایا کہ قومی اتحاد ملک کو طاقتور بنانے کے لیے ضروری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلیوں میں ایرانی عوام کی بھرپور شرکت کی قدر دانی کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگ جانتے ہیں کہ امریکہ ان کی مشارکت سے ڈرتا ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پورے جوش وجذبے کے ساتھ شرکت کی اور اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی مکمل حمایت کا ثبوت پیش کیا۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکی اور صیہونی میڈیا نے اپنے ابلاغیاتی تسلط کے ذریعے پوری کوشش کی کہ ایرانی عوام کی یہ آواز دنیا کی دیگر قوموں تک نہ پہنچے، لیکن یہ آواز امریکہ، برطانیہ اور دشمن کے جاسوسی اداروں کے کانوں تک ضرور پہنچی ہے اور پہنچنا بھی چاہیے تھی۔
ایران کے بارے میں دشمن کے پروپیگنڈے کو کذب محض قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ایران بند گلی میں ہے اور اسلامی جمہوریہ کے پیر اکھڑ چکے ہیں۔ آپ نے استفسار کیا کہ اگر ایران بند گلی میں ہے اور اس کے پیر اکھڑ چکے ہیں تو پھر اس کو جھکانے کے لیے اتنی بھاری سرمایہ کاری کیوں کی جارہی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تمام تر مشکلات کے باجود ایران نے پچھلے تین عشروں کے دوران کافی ترقی کی ہے۔آپ نے ایران کی دفاعی توانائیوں اور اس شعبے میں سرمایہ کاری کے بارے میں کیے جانے والے منفی پروپیگنڈے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران نے صنعتوں، انفرا اسٹرکچر اور ڈیم سازی اور بہت سے دوسرے شعبوں میں، دفاع سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے لیکن دشمن ان شعبوں میں ترقی سے انکار اور دفاعی معالات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے واضح کیا کہ عقل اور شریعت کے تقاضوں کے مطابق ایران نے دفاعی معاملات پر بھی پوری توجہ دی ہے اور قرآنی احکامات کے مطابق آئندہ بھی اس میدان میں ترقی کا سلسلہ جاری رہے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کے عوام نے بدخواہوں کے وسوسے پر توجہ دی ہے ، نہ دیں گے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ طاقتور ایران کی جانب سے اٹھایا جانے والا ہر قدم دشمنوں میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ قومی اتحاد ملک کو طاقتور بنانے کے لیے ضروری ہے البتہ ملک میں اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے اور اس پر مباحثہ اور مناظرہ اچھی بات ہے مگر اختلاف رائے کو تنازعہ کا سبب نہیں بننا چاہیے۔